اک انوکھی رسم کو زندہ رکھا ہے
اک انوکھی رسم کو زندہ رکھا ہے خون ہی نے خون کو پسپا رکھا ہے اب جنون خود نمائی میں تو ہم نے وحشتوں کا اک دریچہ وا رکھا ہے شہر کیسے اب حقیقت آشنا ہو آگہی پر ذات کا پہرہ رکھا ہے تیرگی کی کیا عجب ترکیب ہے یہ اب ہوا کے دوش پر دیوا رکھا ہے تم چراغوں کو بجھانے پر تلے ہو ہم نے سورج کو ...