Tab Aslam

تاب اسلم

تاب اسلم کی غزل

    صبح بہار و شام خزاں کچھ نہ کچھ تو ہو

    صبح بہار و شام خزاں کچھ نہ کچھ تو ہو بے نام زندگی کا نشاں کچھ نہ کچھ تو ہو خاموشیوں کی آگ میں جلتا ہے مے کدہ دل دادگان شعلہ رخاں کچھ نہ کچھ تو ہو جینے کے واسطے کوئی صورت تو چاہیے ہو شمع انجمن کہ دھواں کچھ نہ کچھ تو ہو چپ چپ ہے موج اور کنارے اداس ہیں اے زندگی کے سیل رواں کچھ نہ کچھ ...

    مزید پڑھیے

    دل کے صحرا میں بڑے زور کا بادل برسا

    دل کے صحرا میں بڑے زور کا بادل برسا اتنی شدت سے کوئی رات مجھے یاد آیا جس سے اک عمر رہا دعویٔ قربت مجھ کو ہائے اس نے نہ کبھی آنکھ اٹھا کر دیکھا تو مری منزل مقصود ہے لیکن ناپید میں تری دھن میں شب و روز بھٹکنے والا پھیل جاتا ترے ہونٹوں پہ تبسم کی طرح کاش حالات کا پہلو کبھی ہو ...

    مزید پڑھیے

    منزلوں اس کو آواز دیتے رہے منزلوں جس کی کوئی خبر بھی نہ تھی

    منزلوں اس کو آواز دیتے رہے منزلوں جس کی کوئی خبر بھی نہ تھی دامن شب میں کوئی ستارہ نہ تھا شمع کوئی سر رہ گزر بھی نہ تھی اک بگولہ اٹھا دشت میں کھو گیا اک کرن تھی جو ظلمت میں گم ہو گئی زندگی جس کو سمجھے تھے ہم زندگی زندگی مثل رقص شرر بھی نہ تھی فصل گل سے تھا آباد صحن چمن فصل گل جو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھی نقش سلامت نہیں ہے چہرے کا

    کوئی بھی نقش سلامت نہیں ہے چہرے کا بدل گیا ہے کچھ ایسا چلن زمانے کا میں کس لیے تجھے الزام بے وفائی دوں کہ میں تو آپ ہی پتھر ہوں اپنے رستے کا کوئی ہے رنگ کوئی روشنی کوئی خوشبو جدا جدا ہے تأثر ہر ایک لمحے کا وہ تیرگی ہے مسلط کہ آسمانوں پر سراغ تک نہیں ملتا کسی ستارے کا غضب تو یہ ...

    مزید پڑھیے