Syed Tamjeed Haider Tamjeed

سید تمجید حیدر تمجید

سید تمجید حیدر تمجید کی غزل

    عجیب شوخئ دنیا میں جی رہا ہوں میں

    عجیب شوخئ دنیا میں جی رہا ہوں میں اسی کا جام غریبانہ پی رہا ہوں میں تھا جا وہ بانٹ دیا اپنوں اور غیروں میں اب اپنی جیب کے سوراخ سی رہا ہوں میں جہاں تصور انسان تھک کے ہارتا ہے اسی محاذ عبث میں کبھی رہا ہوں میں کسی نے پوچھا کسی کے کسی خیال میں تھے کہا جواب میں میں نے کہ جی رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    محاذ‌ زندگی کے ہر محارب سے لڑو صاحب

    محاذ‌ زندگی کے ہر محارب سے لڑو صاحب کبھی آگے بڑھو صاحب کبھی پیچھے ہٹو صاحب کبھی خود بھی تو سمجھو عقل آرائی کی تلقینیں کچھ اپنے صاحبوں سے طرز استبصار لو صاحب کہاں تک ہم بتاتے جائیں کب کیا کیسے کرنا ہے کچھ اپنے آپ بھی اچھا برا سمجھا کرو صاحب توقف بھی سفر کا رکن ہے اب یہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    چاہوں تو ابھی ہجر کے حالات بتا دوں

    چاہوں تو ابھی ہجر کے حالات بتا دوں پھر کیا ہے ترے وصل کی اوقات بتا دوں سمجھے ہے تو بس میرے ظواہر کے اشارے میں اپنے پہ آؤں تو تری ذات بتا دوں وہ راز جو کھولے گا ظواہر کی حقیقت تو بولے بتا دوں تو میں وہ بات بتا دوں پڑھ سکتا ہوں میں جلد کتاب رخ روشن چاہوں تو مضامین‌ مقالات بتا ...

    مزید پڑھیے

    اب اس سے اور عبارت نہیں کوئی سادی

    اب اس سے اور عبارت نہیں کوئی سادی کہ میرا خاص ہنر بھی رہا خدا دادی خدا کی یاد ہے خلوت میں اس لئے بہتر کہ خود کو جانے گا تنہائیوں میں فریادی تم اس کے بندے بنو وہ کہ جو دکھائی نہ دے اسی میں پنہاں ہے انسان رمز آزادی وہ جانے والے ہوں حاضر کہ آنے والے ہوں سب ایک خط میں کھڑے ہیں بقید ...

    مزید پڑھیے

    پھر عمر بھر کی نالہ سرائی کا وقت ہے

    پھر عمر بھر کی نالہ سرائی کا وقت ہے اے دل پھر ایک بار جدائی کا وقت ہے کام آ نہ پائیں گے مجھے یہ نیم باز اب اے چشم تر یہ دیدہ درائی کا وقت ہے سینے میں یاں کوئی دل بے مدعا نہیں ہاں چپ ہوں اس لئے کہ بھلائی کا وقت ہے مجبور طور ہوں سو میں شیریں نوا رہوں گو جانتا ہوں تلخ نوائی کا وقت ...

    مزید پڑھیے

    زمین عشق پہ اے ابر اعتبار برس

    زمین عشق پہ اے ابر اعتبار برس وصال یار کا بہہ جائے انتظار برس شراب شوق کہیں مجھ کو کر نہ دے مدہوش تری تری سے اتر جائے یہ خمار برس مرے حبیب کو دے دوں وفا کا اک موتی کھلا ہے دل کا صدف آ بس ایک بار برس پئے نمود نہ گرمی ہے عشق کی نہ ہوا درخت زیست کے ہیں خشک برگ و بار برس کہیں نجات کا ...

    مزید پڑھیے

    سانس کا اپنی رگ جاں سے گزر ہونے تک

    سانس کا اپنی رگ جاں سے گزر ہونے تک درد ہوتا ہے مجھے شب کے سحر ہونے تک عمر گزری پہ اثر آہ کا پھر بھی نہ ہوا جی گئے ہم بھی کسی زلف کے سر ہونے تک جب وہ سمجھیں گے تو یہ درد میں ڈھل جائے گی آہ باقی ہے مری صرف اثر ہونے تک تھا تغافل انہیں نو میدئ جاوید بھی تھی خاک در خاک تھے ہم ان کو خبر ...

    مزید پڑھیے

    کچھ دیر ہوئی ہے کہ میں بے باک ہوا ہوں

    کچھ دیر ہوئی ہے کہ میں بے باک ہوا ہوں جب اپنے ہی ماضی پہ المناک ہوا ہوں تھی فکر جو محدود تو تھا خاک کا ذرہ جب آنکھ کھلی زینت افلاک ہوا ہوں قبل اس کے کہ باہر سے کوئی آ کے بتائے میں اپنے ہی خود آپ میں چالاک ہوا ہوں کیا ان کو خبر ہے جو فلک کہتے ہیں مجھ کو میں اپنی بلندی کے لئے خاک ہوا ...

    مزید پڑھیے

    تیرا یہ حسن بے کراں مقید زمان ہے

    تیرا یہ حسن بے کراں مقید زمان ہے مگر تجھے اے زندگی کہاں کوئی گمان ہے نشان کھو گیا میں اپنے آپ اپنے آپ کا جہاں کوئی ہو بے نشاں وہیں میرا نشان ہے نہ دیکھ اے اس اس تراش تیر کو ذرا یہ دیکھ آ کہ کس کے ہاتھ میں کمان ہے یہ دعوت جہاد بے محل نہیں ہے اے زمیں کسی فقیر بے ہنر کا آخری بیان ...

    مزید پڑھیے