Syed Shakeel Desnavi

سید شکیل دسنوی

سید شکیل دسنوی کی غزل

    عقب سے وار تھا آخر میں آہ کیا کرتا

    عقب سے وار تھا آخر میں آہ کیا کرتا کسی بھی آڑ میں لے کر پناہ کیا کرتا غریب شہر تھا آنکھوں میں تھی انا زندہ سزائے موت نہ دیتا تو شاہ کیا کرتا مرے خلوص کو جو سکۂ غرض سمجھا میں ایسے شخص سے آخر نباہ کیا کرتا یوں اس کے عفو کا دامن بھی داغدار نہ ہو یہی خیال تھا قصد گناہ کیا کرتا یہ ...

    مزید پڑھیے

    اس سے بھی ایسی خطا ہو یہ ضروری تو نہیں

    اس سے بھی ایسی خطا ہو یہ ضروری تو نہیں وہ بھی مجبور وفا ہو یہ ضروری تو نہیں لوگ چہرے پہ کئی چہرے چڑھا لیتے ہیں وہ بھی کھل کر ہی ملا ہو یہ ضروری تو نہیں اب کے جب اس سے ملو ہاتھ دبا کر دیکھو اب بھی وہ تم سے خفا ہو یہ ضروری تو نہیں جستجو کس کی ہے یہ دشت فنا کے اس پار وہ کوئی اور رہا ہو ...

    مزید پڑھیے

    ریزہ ریزہ جیسے کوئی ٹوٹ گیا ہے میرے اندر

    ریزہ ریزہ جیسے کوئی ٹوٹ گیا ہے میرے اندر کون ہے سیدؔ کرب جو اتنے جھیل رہا ہے میرے اندر اجڑی اجڑی خواب کی بستی صحرا صحرا آنکھیں میری جانے یہ طوفان کہاں سے آج اٹھا ہے میرے اندر خاموشی سے جھیل رہی ہے گرمی سردی ہر موسم کی مجبوری کی چادر اوڑھے ایک انا ہے میرے اندر آج نہ جانے کیوں ...

    مزید پڑھیے

    یہ شبنم پھول تارے چاندنی میں عکس کس کا ہے

    یہ شبنم پھول تارے چاندنی میں عکس کس کا ہے سنہری دھوپ چھاؤں روشنی میں عکس کس کا ہے یہ ڈھلتی شام یہ قوس قزح کی رنگ آمیزی یہ نیلے آسماں کی دل کشی میں عکس کس کا ہے سہانی شب لئے آغوش میں خوابوں کی پریوں کو چمکتے دن کی اس افسوں گری میں عکس کس کا ہے انا کی سرکشی امید ارماں خواب کی ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے ٹوٹا ربط تو پھر اور کیا رہ جائے گا

    تجھ سے ٹوٹا ربط تو پھر اور کیا رہ جائے گا انتشار ذات کا اک سلسلہ رہ جائے گا قربتیں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا چند یادوں کے سوا بس اور کیا رہ جائے گا یہ تغافل ایک دن اک سانحہ بن جائے گا عکس تو کھو جائے گا اور آئنہ رہ جائے گا وقت میں لمحہ سا میں تحلیل ہوتا جاؤں گا خالی آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    کن حوالوں میں آ کے الجھا ہوں

    کن حوالوں میں آ کے الجھا ہوں تیری آنکھوں میں خود کو پڑھتا ہوں کون مجھ میں ہے بر سر پیکار روز کس سے جہاد کرتا ہوں راہ مڑ مڑ کے لوٹ آتی ہے گھر سے جب بھی ذرا نکلتا ہوں رشتۂ دل کسی سے ٹوٹا ہے روز راہیں نئی بدلتا ہوں آنسوؤں سے ہوا کے آنچل پر کس ستم گر کا نام لکھتا ہوں

    مزید پڑھیے

    میں کرب بت تراشیٔ آذر میں قید تھا

    میں کرب بت تراشیٔ آذر میں قید تھا شعلے کا کیا قصور جو پتھر میں قید تھا جس کی تہوں میں خود ہی مچلتی ہیں آندھیاں میں خواہشوں کے ایسے سمندر میں قید تھا پھینکے ہے مجھ کو دور یہ گردش ہے کتنی تیز کن مشکلوں سے ذات کے محور میں قید تھا آتے ہیں سارے راستے مڑ کر یہیں شکیلؔ زنداں مرا یہی ...

    مزید پڑھیے

    کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی مرے ذکر پر جھینپ جاتی تو ہوگی

    کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی مرے ذکر پر جھینپ جاتی تو ہوگی حیا بار آنکھوں میں سپنے سجائے وہ کچھ سوچ کر مسکراتی تو ہوگی مرے شعر پڑھ کر اکیلے میں اکثر انہیں زیر لب گنگناتی تو ہوگی مرے نام پھر کچھ وہ لکھنے کی خاطر قلم بے ارادہ اٹھاتی تو ہوگی حسیں چاندنی ہو یا ساون کی رت ہو کسک اس کے ...

    مزید پڑھیے

    کس کو خبر یہ ہستی کیا ہے کتنی حقیقت کتنا خواب

    کس کو خبر یہ ہستی کیا ہے کتنی حقیقت کتنا خواب دشت فنا میں حیراں ہیں سب لے کر اپنا اپنا خواب لپٹی ہوئی تھی ہم سے کیسی خوشبو اس کی یادوں کی آنکھ کھلی تب جانا ہم نے دیکھا تھا اک پیارا خواب اس کے تصور میں قربت کے دھوکے کتنے کھائے ہیں پاس جو آئے ایسا لگے ہے آدھی حقیقت پورا خواب کھو ...

    مزید پڑھیے

    یہ زاد راہ ہمیشہ سفر میں رکھ لینا

    یہ زاد راہ ہمیشہ سفر میں رکھ لینا بچھڑے وقت کا منظر نظر میں رکھ لینا ملے تو راس بھی آئے لکیر ہاتھوں کی یہ اک کمال بھی دست ہنر میں رکھ لینا سفر ہے لوٹ کے آنا اگر نصیب نہ ہو سجا کے یاد مری چشم تر میں رکھ لینا ہماری زد میں ہے پوری طرح فصیل شب ہمارا نام نمود سحر میں رکھ لینا کسی کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2