Syed Shakeel Desnavi

سید شکیل دسنوی

سید شکیل دسنوی کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    عقب سے وار تھا آخر میں آہ کیا کرتا

    عقب سے وار تھا آخر میں آہ کیا کرتا کسی بھی آڑ میں لے کر پناہ کیا کرتا غریب شہر تھا آنکھوں میں تھی انا زندہ سزائے موت نہ دیتا تو شاہ کیا کرتا مرے خلوص کو جو سکۂ غرض سمجھا میں ایسے شخص سے آخر نباہ کیا کرتا یوں اس کے عفو کا دامن بھی داغدار نہ ہو یہی خیال تھا قصد گناہ کیا کرتا یہ ...

    مزید پڑھیے

    اس سے بھی ایسی خطا ہو یہ ضروری تو نہیں

    اس سے بھی ایسی خطا ہو یہ ضروری تو نہیں وہ بھی مجبور وفا ہو یہ ضروری تو نہیں لوگ چہرے پہ کئی چہرے چڑھا لیتے ہیں وہ بھی کھل کر ہی ملا ہو یہ ضروری تو نہیں اب کے جب اس سے ملو ہاتھ دبا کر دیکھو اب بھی وہ تم سے خفا ہو یہ ضروری تو نہیں جستجو کس کی ہے یہ دشت فنا کے اس پار وہ کوئی اور رہا ہو ...

    مزید پڑھیے

    ریزہ ریزہ جیسے کوئی ٹوٹ گیا ہے میرے اندر

    ریزہ ریزہ جیسے کوئی ٹوٹ گیا ہے میرے اندر کون ہے سیدؔ کرب جو اتنے جھیل رہا ہے میرے اندر اجڑی اجڑی خواب کی بستی صحرا صحرا آنکھیں میری جانے یہ طوفان کہاں سے آج اٹھا ہے میرے اندر خاموشی سے جھیل رہی ہے گرمی سردی ہر موسم کی مجبوری کی چادر اوڑھے ایک انا ہے میرے اندر آج نہ جانے کیوں ...

    مزید پڑھیے

    یہ شبنم پھول تارے چاندنی میں عکس کس کا ہے

    یہ شبنم پھول تارے چاندنی میں عکس کس کا ہے سنہری دھوپ چھاؤں روشنی میں عکس کس کا ہے یہ ڈھلتی شام یہ قوس قزح کی رنگ آمیزی یہ نیلے آسماں کی دل کشی میں عکس کس کا ہے سہانی شب لئے آغوش میں خوابوں کی پریوں کو چمکتے دن کی اس افسوں گری میں عکس کس کا ہے انا کی سرکشی امید ارماں خواب کی ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے ٹوٹا ربط تو پھر اور کیا رہ جائے گا

    تجھ سے ٹوٹا ربط تو پھر اور کیا رہ جائے گا انتشار ذات کا اک سلسلہ رہ جائے گا قربتیں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا چند یادوں کے سوا بس اور کیا رہ جائے گا یہ تغافل ایک دن اک سانحہ بن جائے گا عکس تو کھو جائے گا اور آئنہ رہ جائے گا وقت میں لمحہ سا میں تحلیل ہوتا جاؤں گا خالی آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 نظم (Nazm)

    گلاب کی موت

    آج سارے چمن میں ماتم ہے موت نے حسن اس کا لوٹا ہے جاں چمن کی تھی تازگی جس کی شاخ سے وہ گلاب ٹوٹا ہے اس کے دم سے تھی ساری رعنائی اس چمن کا شباب تھا نہروؔ خود بہاریں نثار تھیں جس پر وہ شگفتہ گلاب تھا نہرو اس سے کتنا تھا پیار لوگوں کو اس کسوٹی پہ اب پرکھنا ہے اس نے آدرش جو دیا تھا ...

    مزید پڑھیے

    جھیل

    درپن چاند ستاروں کا فطرت کے نظاروں کا گہری چنچل نیلی جھیل حد نظر تک پھیلی جھیل

    مزید پڑھیے

    پہاڑ

    بنجر ہیں پتھریلے ہیں اور کہیں برفیلے ہیں دل کش ہیں شاداب بھی ہیں خود میں سمیٹے خواب بھی ہیں

    مزید پڑھیے

    جنگل

    ہرے بھرے یہ جنگل بن سارے پرانی کا مسکن اک دنیا آباد وہاں ہر کوئی آزاد وہاں

    مزید پڑھیے

    درخت

    دھوپ میں سایہ دار درخت لدے پھدے پھل دار درخت تازہ ان سے ہوا ملے جینے کا سب مزہ ملے

    مزید پڑھیے