کچھ اس انداز سے ہیں دشت میں آہو نکل آئے
کچھ اس انداز سے ہیں دشت میں آہو نکل آئے کہ ان کو دیکھ کر پھولوں کے بھی آنسو نکل آئے فلک کو کون سی وادی برہنہ سر نظر آئی گرجتے بادلوں کے لشکری ہر سو نکل آئے ابھی تو ایک ہی دل کا دریچہ وا کیا میں نے یہاں بہر زیارت کس قدر جگنو نکل آئے جو سجدے کی نہیں تو رقص کرنے کی اجازت ہو کسی سینے ...