سید جمیل مدنی کی غزل

    بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ

    بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ خودی نے وا کئے ہیں راز کیا پیچیدہ پیچیدہ نظر حیراں طبیعت ہے ذرا رنجیدہ رنجیدہ ہوا دل ہے کسی کا مبتلا پوشیدہ پوشیدہ فضاؤں سے فسانہ سن کے اس کے درد ہجراں کا گلوں نے چن لئے اشک صبا لرزیدہ لرزیدہ اسی مست جوانی کے قدم بڑھ کر لئے ہوں گے چمن میں چل ...

    مزید پڑھیے

    طور اپنا ہے الگ ایں سے الگ آں سے الگ

    طور اپنا ہے الگ ایں سے الگ آں سے الگ گو کسی طور نہیں حکمت یزداں سے الگ زیست اک اور بھی ہے قید رگ جاں سے الگ صبح تاباں سے جدا شام غریباں سے الگ ظلمت شب کی طرح نور شبستاں سے الگ غم دوراں سے الگ عشق نگاراں سے الگ گر ترے واسطے دل دھڑکے تو زندہ تو ہے دل کی آواز ہے آواز پریشاں سے ...

    مزید پڑھیے