بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ
بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ خودی نے وا کئے ہیں راز کیا پیچیدہ پیچیدہ نظر حیراں طبیعت ہے ذرا رنجیدہ رنجیدہ ہوا دل ہے کسی کا مبتلا پوشیدہ پوشیدہ فضاؤں سے فسانہ سن کے اس کے درد ہجراں کا گلوں نے چن لئے اشک صبا لرزیدہ لرزیدہ اسی مست جوانی کے قدم بڑھ کر لئے ہوں گے چمن میں چل ...