شگفتہ ہو کے بیٹھے تھے وہ اپنے بے قراروں میں
شگفتہ ہو کے بیٹھے تھے وہ اپنے بے قراروں میں تڑپ بجلی کی پیدا ہو گئی پھولوں کے ہاروں میں کیا اندھیر اپنے رنج نے ان کی کدورت نے بجھی شمع محبت ہائے دو دل کے غباروں میں شب فرقت کو زاہد سے سوا مر مر کے کاٹا ہے کرے مشہور ہم کو بھی خدا شب زندہ داروں میں یہ کس نے کشتۂ تیغ تبسم کر دیا ...