سریندر شجر کی غزل

    میرے اور اپنے درمیاں اس نے

    میرے اور اپنے درمیاں اس نے کتنا پھیلا دیا دھواں اس نے خود بلاتی تھی منزل مقصود طے نہ کیں اپنی دوریاں اس نے جن سے پہچان تھی کبھی اس کی کھو دیے ہیں وہ سب نشاں اس نے جھوٹ بولا نہیں گیا اس سے کر لیا خود کو بے زباں اس نے بے خبر ہے وہ موسموں سے شجرؔ بند کر لی تھیں کھڑکیاں اس نے

    مزید پڑھیے

    ایک دن میرا آئینہ مجھ کو

    ایک دن میرا آئینہ مجھ کو مجھ سے کر جائے گا جدا مجھ کو وہ بھی موجود تھا کنارے پر اس نے دیکھا تھا ڈوبتا مجھ کو غم، مصیبت، فراق، تنہائی، اس نے کیا کچھ نہیں دیا مجھ کو پھول ہوں خاک تو نہیں ہوں میں راس کب آئے گی ہوا مجھ کو سیکڑوں آئنے بدل ڈالے اپنا چہرا نہیں ملا مجھ کو لب پہ مہر ...

    مزید پڑھیے

    نہیں رہے گا ہمیشہ غبار میرے لیے

    نہیں رہے گا ہمیشہ غبار میرے لیے کھلیں گے پھول سر رہ گزار میرے لیے کبھی تو ہوگی کسی کو مری کمی محسوس کبھی تو ہوگا کوئی سوگوار میرے لیے ترس گئے تھے مرے لب ہنسی کو جس کے سبب ہوا ہے آج وہی اشک بار میرے لیے وہ میرے قرب سے محروم ہی رہے شاید وہ منتظر ہے سمندر کے پار میرے لیے مری تلاش ...

    مزید پڑھیے

    اشک آنکھوں میں چھپا لیتا ہوں میں

    اشک آنکھوں میں چھپا لیتا ہوں میں غم چھپانے کے لیے ہنستا ہوں میں شرم آتی تھی کبھی تجھ سے مجھے زندگی اب خود سے شرمندہ ہوں میں مدتوں سے آئینہ دیکھا نہیں کوئی بتلائے مجھے کیسا ہوں میں غم خوشی وحشت پریشانی سکوں سیکڑوں چہروں کا اک چہرہ ہوں میں ہے مجھی میں ہم نفس میرا کوئی سانس وہ ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو سب سامان پڑا ہے

    یوں تو سب سامان پڑا ہے لیکن گھر ویران پڑا ہے شہر پہ جانے کیا بیتی ہے ہر رستہ سنسان پڑا ہے زندہ ہوں پر کوئی مجھ میں مدت سے بے جان پڑا ہے تبھی چلیں ہیں اس قافلے والے جب رستہ آسان پڑا ہے شاعر کانٹوں پر جیتا تھا پھولوں پر دیوان پڑا ہے میرے گھر کے دروازے پر میرا ہی سامان پڑا ...

    مزید پڑھیے

    میں نہیں کہتا ہر اک چیز پرانی لے جا

    میں نہیں کہتا ہر اک چیز پرانی لے جا مجھ کو جینے نہیں دیتی جو نشانی لے جا ایک بن باس تو جینا ہے تجھے بھی اے دوست اپنے ہم راہ کوئی رام کہانی لے جا جن سے امید ہے صحرا میں گھنی چھاؤں کی ان درختوں کے لیے ڈھیر سا پانی لے جا سچ کو کاغذ پہ اترنے میں ہو خطرہ شاید میری سوچی ہوئی ہر بات ...

    مزید پڑھیے