sulaiman ahmad mani

سلیمان احمد مانی

سلیمان احمد مانی کی غزل

    ذوق پہ شوق پہ مٹ جانے کو تیار اٹھا

    ذوق پہ شوق پہ مٹ جانے کو تیار اٹھا عشق کا درد لیے پھر ترا بیمار اٹھا ہم نے میخانے میں جانی نہیں کرنی تفریق جو بھی بیٹھا مری محفل میں گنہ گار اٹھا وصل محبوب اٹھا رکھیں گے کب تک کہ پھر آج فرہاد ہے تیشہ کا طلب گار اٹھا گم شدہ لیلیٰ کو کب تک وہ چھپا رکھیں گے جب کہ دیوانے کو سودائے رخ ...

    مزید پڑھیے

    وہ مزاج دل کے بدل گئے کہ وہ کاروبار نہیں رہا

    وہ مزاج دل کے بدل گئے کہ وہ کاروبار نہیں رہا مری جان تیرے فراق میں کوئی سوگوار نہیں رہا تری آرزو کہیں کھو گئی مری جستجوئے فضول میں مجھے عین وقت وصال میں ترا انتظار نہیں رہا نہ خرد رہی نہ جنوں بچا دل پر غرور یہ کیا ہوا تجھے اپنے آپ پہ خود بھی اب ذرا اعتبار نہیں ہے دم اولیں کے وہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہی آپ میں اسیر ہوں میں

    اپنے ہی آپ میں اسیر ہوں میں اپنے زنداں میں بے نظیر ہوں میں ایک شہر خیال ہے میرا اپنے اس شہر کا امیر ہوں میں بڑھتا جاتا ہے زندگی کا خط ایک گھٹتی ہوئی لکیر ہوں میں کیوں بلاتے ہو اب جہاں والو ایک گوشہ نشیں فقیر ہوں میں قرض اس دل پہ الفتوں کے ہیں دوستوں کا کرم امیر ہوں میں کھچ کے ...

    مزید پڑھیے

    کیوں اور زخم سینے پہ کھاؤ ہو دوستو

    کیوں اور زخم سینے پہ کھاؤ ہو دوستو کاہے کسی سے آس لگاؤ ہو دوستو اک آبرو بچی ہے سو رکھیو سنبھال کے کس پاس کیا غرض لئے جاؤ ہو دوستو پہنچے وہیں ہیں آج جہاں سے چلے تھے ہم اب راہ کون اور دکھاؤ ہو دوستو اس طبع سے تو خود ہی پریشان ہے یہ دل ٹھیس اس کو اور کاہے لگاؤ ہو دوستو جور و جفائے ...

    مزید پڑھیے

    اور کر لیں گے وہ کیا اب ہمیں رسوا کر کے

    اور کر لیں گے وہ کیا اب ہمیں رسوا کر کے اب جو آئے ہیں تو جائیں گے تماشا کر کے اپنی تخلیق کے اکمال سے سودا کر کے کون اس پردے میں بیٹھا ہے تماشا کر کے اک زمانہ ہے پریشان معمہ کیا ہے تم تو غائب ہوئے کچھ کام ادھورا کر کے تیرے جلوے کی ہوس ہم کو ہر اک رنگ میں ہے سوئے بت خانہ چلے جاتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    نہیں اس دشت میں کوئی خضر ہے

    نہیں اس دشت میں کوئی خضر ہے کہ بس میں ہوں مری گرد سفر ہے حقیقت آخری یہ مختصر ہے کہیں سنسان سا تاریک گھر ہے نہ سنگ راہ ہے نہ راہ بر ہے بھٹکتا دل ہے اور دھندلی نظر ہے جو منزل ہی سے ہو غافل مسافر بھلا کیا لطف جو روشن نظر ہے نہ عالم ہم سے خوش نہ خود سے ہم خوش یہ بینا آنکھ بھی کیا درد ...

    مزید پڑھیے

    اک ترا درد ہے تنہائی ہے رسوائی ہے

    اک ترا درد ہے تنہائی ہے رسوائی ہے تین لفظوں میں مری زیست سمٹ آئی ہے زندگی الجھے ہوئے خواب کا ابہام کبھی کبھی اس شوخ کی اٹھتی ہوئی انگڑائی ہے کتنے پیچیدہ ہیں جذبات غزل کیا کہیے خامہ حیران ادھر سلب یہ گویائی ہے ہو وہ پھولوں کا تبسم کہ غزالوں کا خرام جو ادا آئی ہے تجھ میں وہ نکھر ...

    مزید پڑھیے

    تجھے کیا ہوا ہے بتا اے دل نہ سکون ہے نہ قرار ہے

    تجھے کیا ہوا ہے بتا اے دل نہ سکون ہے نہ قرار ہے کبھی اس حسین کی چاہ ہے کبھی اس نگار سے پیار ہے جو سمجھ میں آئے وہ بات کیا یہ معاملات ہیں عشق کے کہ نقاب رخ پہ رہے مگر ہے یقین یہ وہی یار ہے یہ ہیں اپنے ذہن کے عکس سب یہاں اصل کیا ہے خیال کیا یہ خزاں کے رنگ ہیں بے خبر تو سمجھ رہا ہے بہار ...

    مزید پڑھیے