صوفیہ کاشف کی رباعی

    وصال

    پھولوں اور خوشبوؤں سے بھرپور ایک باغ تھا جس میں ہر طرف روپہلے،اودے،کاسنی،قرمزی،نارنگی جامنی اور گلابی پھول اوپر نیچے،دائیں بائیں بھرے ہوے تھے۔روش کے گرد کھڑی مہرابیں،کناروں پر رکھے سینکڑوں گملے اور پرندوں کے مجسمے،طنابیں اور چھپریاں سب کی سب پھولوں سے یوں شرابور تھیں کہ ...

    مزید پڑھیے

    انتہا

    بل کھاتی ندیوں کے ٹھنڈے تازہ پانی کی بہتی لہروں میں سے چھینٹے اڑاتے مجھے جس کے سنگ گزرنا تھا،کوئی تھا ایسا جس کے ساتھ میں مجھے پھولوں کی طرح کھلنا اور کلیوں کی طرح چٹکنا تھا،ستاروں کی صورت چمکنا تھا۔بلند پہاڑوں کی خایک رنگ خاموشیوں میں،ہواؤں کے سنگ بہتے چشموں کی گنگنا ہٹ ...

    مزید پڑھیے

    تالے

    وہ انیس بیس سال کی کچی کلی تھی اور میں عمر کی دہاییاں عبور کرتا چالیسویں کے آخری پیٹے میں جا پہنچا تھا مگر جوانی دل کی ہر رگ میں ڈیرہ جمان تھی۔ بچے جوان تھے اور بیوی بوڑھی۔ بالوں کے رنگ ، مہنگے کپڑوں کی کریز ،بے سلوٹ جوتوں کی چمک سے اور لمبی بڑی کالی کار کی امارت نے عمر کا حساب ...

    مزید پڑھیے