Sudesh Kumar Mehr

سدیش کمار مہر

سدیش کمار مہر کی غزل

    معاف کیجیے گستاخیاں ہماری ہیں

    معاف کیجیے گستاخیاں ہماری ہیں لبوں پہ آپ کے یہ تتلیاں ہماری ہیں یہ چیت کا ہے مہینہ تمہاری یاد بھرا کہ ان دنوں بڑی سرگرمیاں ہماری ہیں تمہارے ہونٹوں سے کچھ رابطے ہیں گہرے سے تمہاری آنکھوں میں دلچسپیاں ہماری ہیں ہر ایک لفظ ہے پھیکا ہے بے‌ سواد سا ہے بہت لذیذ یہ خاموشیاں ہماری ...

    مزید پڑھیے

    لڑکپن کی حسیں دل کش ڈگر کا

    لڑکپن کی حسیں دل کش ڈگر کا ہمارا پیار تھا پہلی نظر کا سبب وہ شام کا وہ ہی سحر کا بھروسہ کیا کریں ایسی نظر کا سوا میرے دکھے ہیں عیب سب کے بڑا دھوکا رہا میری نظر کا تری بس خوشبوئیں رکھ دیں ہوا پر پتہ لکھا نہیں تیرے نگر کا

    مزید پڑھیے

    بہت خوددار ہے گھٹنوں کے بل چل کر نہیں آتا

    بہت خوددار ہے گھٹنوں کے بل چل کر نہیں آتا وہ لکھتا ہے بہت اچھا مگر چھپ کر نہیں آتا محبت خلوت دل میں اتر جاتی ہے چپکے سے یہ ایسا ہے مرض یارو کبھی کہہ کر نہیں آتا رضا اس کی بہاتی ہے تو پتوں کو کنارہ ہے مگر خود تیرتا ہے آدمی بہہ کر نہیں آتا جو اس کے دل میں آتا ہے وہی کہتا ہے محفل ...

    مزید پڑھیے

    کوئی غزل ہو یہ لہجہ نہیں بدلتے ہم

    کوئی غزل ہو یہ لہجہ نہیں بدلتے ہم کہ سچ ہو کتنا بھی کڑوا نہیں بدلتے ہم کسی گلی سے یہ رشتہ نہیں بدلتے ہم تمہارے بعد بھی رستہ نہیں بدلتے ہم کھلی کتاب کے جیسی ہے زندگی اپنی کسی کے سامنے چہرہ نہیں بدلتے ہم لہولہان ہوں نظریں یا روح ہو زخمی ہماری آنکھوں کا سپنا نہیں بدلتے ہم تمام ...

    مزید پڑھیے

    کئی طرح کے لباس و حجاب رکھوں گا

    کئی طرح کے لباس و حجاب رکھوں گا ادھڑ رہا ہے یہ جیون نقاب رکھوں گا کوئی کتاب تھما کر غریب بچوں کو نئے درختوں کے کچھ انقلاب رکھوں گا کبھی غرور نہ آئے کسی طرح مجھ میں کہ رحمتوں کا میں اس کی حساب رکھوں گا مجھے سوال گڑت کے سمجھ نہیں آتے ترے فریب کے کیسے حساب رکھوں گا بچھڑ کے شاخ سے ...

    مزید پڑھیے