شمس تبریزی کی غزل

    بہت کم بولنا اب کر دیا ہے

    بہت کم بولنا اب کر دیا ہے کئی موقعوں پہ غصہ بھی پیا ہے تم ہم سے پوچھتے ہو کیا کہ ہم نے بہت سا کام نظروں سے لیا ہے بہت گرمی پڑی اب کے برس بھی مئی اور جون مشکل میں جیا ہے رفو آنچل پہ تیرے ہے تو سن لے گریباں چاک ہم نے بھی سیا ہے تمہاری گفتگو بتلا رہی ہے کسی سے عشق تم نے بھی کیا ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی بن کے تو گزرا مت کر

    اجنبی بن کے تو گزرا مت کر دوستی کا یوں تماشا مت کر تیری آنکھیں نہیں دو جگنو ہیں بے سبب ان کو بھگویا مت کر اس کے آنے کا گماں ہوتا ہے اے ہوا پردا ہلایا مت کر میں مسافر ہوں سفر قسمت ہے میرے بارے میں تو سوچا مت کر زندگی ہو کہ محبت ہو شمسؔ ایسی چیزوں پہ بھروسہ مت کر

    مزید پڑھیے

    یوں بظاہر دیکھے تو یار سب

    یوں بظاہر دیکھے تو یار سب وقت پڑنے پر یہی بیکار سب مصلحت ہے حق نظر انداز کر حق کہا جس نے چڑھے وہ دار سب ہم انا کی پوٹلی تھامے رہے ہاتھ خالی تھے ہوئے وہ پار سب اے خدا تو نے بنائی تھیں وہ کیا جس کی آنکھوں سے ہوئے سرشار سب کچھ سکوں شاید میسر آئے گا چھوڑ کے دیکھا تھا یہ گھر بار ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی چاہ میں دل کو جلانا ٹھیک ہے کیا

    کسی کی چاہ میں دل کو جلانا ٹھیک ہے کیا خود اپنے آپ کو یوں آزمانا ٹھیک ہے کیا شکار کرتے ہیں اب لوگ ایک تیر سے دو کہیں نگاہ کہیں پر نشانہ ٹھیک ہے کیا بہت سی باتوں کو دل میں بھی رکھنا پڑتا ہے ہر ایک بات ہر اک کو بتانا ٹھیک ہے کیا گلاب لب تو بدن چاند آتشیں رخسار نظر کے سامنے اتنا ...

    مزید پڑھیے

    جو چاہتے ہو کہ منزل تمہاری جادہ ہو

    جو چاہتے ہو کہ منزل تمہاری جادہ ہو تو اپنا ذہن بھی اس کے لیے کشادہ ہو وہ یاد آئے تو اپنا وجود ہی نہ ملے نہ یاد آئے تو مجھ کو تھکن زیادہ ہو پہاڑ کاٹ دوں سورج کو ہاتھ پر رکھ لوں ذرا خیال میں شامل اگر ارادہ ہو سمجھ سکو جو زمانے کے تم نشیب و فراز تو اپنے عہد کے بچوں سے استفادہ ہو یہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنا گھر بھی کوئی آسیب کا گھر لگتا ہے

    اپنا گھر بھی کوئی آسیب کا گھر لگتا ہے بند دروازہ جو کھل جائے تو ڈر لگتا ہے بعد مدت کے ملاقات ہوئی ہے اس سے فرق اتنا ہے کہ اب اہل نظر لگتا ہے اس زمانے میں بھی کچھ لوگ ہیں فن کے استاد کام کوئی بھی کریں دست ہنر لگتا ہے جس نے جی چاہا اسے لوٹ کے پامال کیا اپنا دل بھی ہمیں دلی سا نگر ...

    مزید پڑھیے

    میں سوچتا ہوں کبھی ایسا ہو نہ جائے کہیں

    میں سوچتا ہوں کبھی ایسا ہو نہ جائے کہیں کہ خواب آنکھ میں ہو آنکھ سو نہ جائے کہیں میں جانتا ہوں بہت روز وہ نہ ٹھہرے گا مگر اس عرصے میں وہ زہر بو نہ جائے کہیں جو ایک عکس بنایا تھا پچھلی بارش نے وہ شکل اب کے سے برسات دھو نہ جائے کہیں اسے یہ شکوہ کہ میں نے نہ پوچھا حال اس کا مجھے یہ ...

    مزید پڑھیے