شمیم طارق کی غزل

    پہونچا میں کوئے یار میں جب سر لیے ہوئے

    پہونچا میں کوئے یار میں جب سر لیے ہوئے نازک بدن نکل پڑے پتھر لیے ہوئے اے دوست زندگی کی مجھے بد دعا نہ دے میں خاک ہو چکا ہوں مقدر لیے ہوئے چلتی ہے روندتی ہوئے پل پل مرا وجود ہر سانس خواہشات کا لشکر لیے ہوئے پرچھائیوں کے دیس میں بے اصل کچھ نہیں منظر بھی ہے یہاں پس منظر لیے ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے پوچھیں کون بتائے کس نے محشر دیکھا ہے

    کسی سے پوچھیں کون بتائے کس نے محشر دیکھا ہے چپ چپ ہے آئینہ جس نے سارا منظر دیکھا ہے منزل منزل چل کر جب بھی آئی لہو میں ڈوبی رات آہٹ آہٹ قتل ہوا ہے قدموں میں سر دیکھا ہے تو ہی بتا رخسار پہ اس کے کتنے تل ہیں کتنے داغ تو نے تو اے دیدۂ بینا پھول کو پتھر دیکھا ہے محفل محفل جس کے چرچے ...

    مزید پڑھیے

    تو یاد آیا اور مری آنکھ بھر گئی

    تو یاد آیا اور مری آنکھ بھر گئی اکثر ترے بغیر قیامت گزر گئی اول تو مفلسوں کی کوئی آرزو نہیں پیدا کبھی ہوئی بھی تو گھٹ گھٹ کے مر گئی اک عشق جیسے لفظ میں مضمر ہو کائنات اک حسن جیسے دھوپ چڑھی اور اتر گئی ناز و ادا سے پاؤں اٹھے اور لرز گئے اچھا ہوا کہ اس کی بلا اس کے سر گئی طارقؔ ...

    مزید پڑھیے

    نیند آنکھوں میں سمو لوں تو سیہ رات کٹے

    نیند آنکھوں میں سمو لوں تو سیہ رات کٹے یہ زمیں اوڑھ کے سو لوں تو سیہ رات کٹے قطرۂ اشک بھی لو دیتے ہیں جگنو کی طرح دو گھڑی پھوٹ کے رو لوں تو سیہ رات کٹے رونے دھونے سے نہیں اگتا خوشی کا سورج قہقہے ہونٹ پہ بولوں تو سیہ رات کٹے آنکھ نا دیدہ مناظر کے تجسس کا ہے نام موتیاں آنکھ میں ...

    مزید پڑھیے

    ہچکیاں لیتا ہوا دنیا سے دیوانہ چلا

    ہچکیاں لیتا ہوا دنیا سے دیوانہ چلا جاں کنی کے وقت بھی تیرا ہی افسانہ چلا میں جنون عشق میں جانے کہاں تک آ گیا شہر کے ہر موڑ سے پتھر جداگانہ چلا خون کی گردش میں شامل ہو گئی دل کی امنگ کوئے قاتل کی طرف بے اختیارانہ چلا موسم گل زرد ہے خون تمنا کے بغیر نقد جاں لے کر چمن میں سرفروشانہ ...

    مزید پڑھیے

    لوگ کیوں ڈھونڈ رہے ہیں مجھے پتھر لے کر

    لوگ کیوں ڈھونڈ رہے ہیں مجھے پتھر لے کر میں تو آیا نہیں کردار پیمبر لے کر مجھ کو معلوم ہے معدوم ہوئی نقد وفا پھر بھی بازار میں بیٹھا ہوں مقدر لے کر روح بیتاب ہے چہروں کا تاثر پڑھ کر یعنی بے گھر ہوا میں شہر میں اک گھر لے کر کس نئے لہجے میں اب روح کا اظہار کروں سانس بھی چلتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    محبوب سا انداز بیاں بے ادبی ہے

    محبوب سا انداز بیاں بے ادبی ہے منصور اسی جرم میں گردن زدنی ہے خود اپنے ہی چہرے کا تعین نہیں ہوتا حالانکہ مرا کام ہی آئینہ گری ہے آنے دو ابھی جبہ و دستار پہ پتھر کچھ کعبہ نشینوں میں ابھی بولہبی ہے خالی ہی رہا دیدۂ پر شوق کا دامن اندھوں کی عقیدت میں وسیع النظری ہے ہر پاؤں سے ...

    مزید پڑھیے