Shamim Ravish

شمیم روش

  • 1956

شمیم روش کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    پلکوں پہ ستارہ سا مچلنے کے لیے تھا

    پلکوں پہ ستارہ سا مچلنے کے لیے تھا وہ شخص ان آنکھوں میں پگھلنے کے لیے تھا وہ زلف ہواؤں میں بکھرنے کے لیے تھی اور جسم مرا دھوپ میں جلنے کے لیے تھا جس روز تراشے گئے یہ زخم اسی روز اک زخم مری روح میں پلنے کے لیے تھا اس خواب کی تعبیر مجھے ملتی بھی کیسے وہ خواب تو افسانوں میں ڈھلنے ...

    مزید پڑھیے

    ستارہ ٹوٹ کے بکھرا اور اک جہان کھلا

    ستارہ ٹوٹ کے بکھرا اور اک جہان کھلا عجیب رخ سے اندھیرے میں آسمان کھلا طلوع صبح سے پہلے میں چھوڑ جاؤں گا سیاہ رات کے پہلو میں اک مکان کھلا پھر اس کے بعد کوئی راہ واپسی کی نہ تھی ہوا کے دوش پہ اس طرح بادبان کھلا میں جس کو ڈھونڈ رہا تھا اداس راتوں میں ستارہ بن کے وہ پلکوں کے درمیان ...

    مزید پڑھیے

    دور تک پھیلی ہوئی ہے تیرگی باتیں کرو

    دور تک پھیلی ہوئی ہے تیرگی باتیں کرو ڈس نہ لے ہم کو کہیں یہ خامشی باتیں کرو آؤ پلکوں سے چنیں بکھرے ہوئے لمحات کو نیند آ جائے نہ جب تک خواب کی باتیں کرو بس یہی لمحے غنیمت ہیں کہ ہم تم ساتھ ہیں کون جانے مل بھی پائیں پھر کبھی باتیں کرو صرف اک کرب مسلسل ہی نہیں ہے زندگی مختصر وقفے ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کو کھینچ کے میں سوئے آسماں لے جاؤں

    زمیں کو کھینچ کے میں سوئے آسماں لے جاؤں یہ دل کا درد ہے اس درد کو کہاں لے جاؤں یہ دل عجیب سی اک کشمکش سے ہے دو چار نتیجہ ایک سا ہوگا اسے جہاں لے جاؤں یہاں تو گل بھی سماتے نہیں ان آنکھوں میں بتا کہاں میں یہ چہرہ دھواں دھواں لے جاؤں لکھا تو ہے مری بے خواب سی ان آنکھوں میں میں اپنے ...

    مزید پڑھیے

    دیوار کی صورت تھا کبھی در کی طرح تھا

    دیوار کی صورت تھا کبھی در کی طرح تھا وہ دھند میں لپٹے ہوئے منظر کی طرح تھا دیکھا تو شگفتہ سا لگا پھول کی صورت اترا تو مری روح میں خنجر کی طرح تھا میں آج تہی دست ہوں اک خاص سبب سے ورنہ میں زمانے میں سکندر کی طرح تھا کچھ وقت نے ترتیب بگاڑی مرے گھر کی کچھ گھر بھی مرا میرے مقدر کی ...

    مزید پڑھیے

تمام