Shamim Fatehpuri

شمیم فتح پوری

شمیم فتح پوری کی غزل

    آنکھیں غم فراق سے ہیں تر ادھر ادھر

    آنکھیں غم فراق سے ہیں تر ادھر ادھر غم کا اثر ہے آج برابر ادھر ادھر تھے جو وفا شعار وہ نذر ستم ہوئے اب کس کو ڈھونڈھتا ہے ستم گر ادھر ادھر محفل میں تیرے حسن پہ قربان ہوگا کون دیوانے چل دیے جو نکل کر ادھر ادھر ساقی کے ساتھ رونق مے خانہ بھی گئی ٹوٹے پڑے ہیں شیشہ و ساغر ادھر ...

    مزید پڑھیے

    کون سا شعلہ لپکتا ہے یہ محمل کے قریب

    کون سا شعلہ لپکتا ہے یہ محمل کے قریب حسن کس کا ہے جو بکھرا ہے مرے دل کے قریب نا خدا تیرے حوالے ہے سفینہ دل کا ڈوب جائے نہ کہیں آ کے یہ ساحل کے قریب پیشوائی کو چلی جاتی ہے خود ہی منزل ہے تھکا ماندہ مسافر کوئی منزل کے قریب کوئی گزرا ہے دبے پاؤں یہ شہر دل سے کس کی آہٹ سی یہ محسوس ...

    مزید پڑھیے

    زندگی ہنستی ہے صبح و شام تیرے شہر میں

    زندگی ہنستی ہے صبح و شام تیرے شہر میں عام ہے دور مئے گلفام تیرے شہر میں کس قدر مشہور ہیں وہ لوگ جو ہیں بوالہوس اور اک ہم ہیں کہ ہیں بدنام تیرے شہر میں کوئی سودائی کوئی کہتا ہے دیوانہ مجھے روز ملتا ہے نیا اک نام تیرے شہر میں ہم جنون عشق کے با وصف بھی ہشیار ہیں صبح تیرے شہر میں ...

    مزید پڑھیے