Shakir Kalkattvi

شاکر کلکتوی

  • 1914 - 1968

شاکر کلکتوی کی غزل

    جبکہ دشمن ہو راز داں اپنا

    جبکہ دشمن ہو راز داں اپنا راز کیوں کر رہے نہاں اپنا عشق میں پھر سکون کیسے ہو دل جب ایسا ہو بد گماں اپنا تھی بہار چمن جوانی پر جبکہ اجڑا تھا آشیاں اپنا ہم مکرر فریب کیا کھائیں لطف رہنے دو مہرباں اپنا کیوں نہ خلوت‌ گزیں رہوں شاکرؔ گزر اس بزم میں کہاں اپنا

    مزید پڑھیے

    تیرے نالوں سے کوئی بدنام ہوتا جائے گا

    تیرے نالوں سے کوئی بدنام ہوتا جائے گا تو بھی اے دل مورد الزام ہوتا جائے گا مطمئن ہوں میں کہ ہو جائے گا سامان سکوں درد بڑھتا جائے گا آرام ہوتا جائے گا وجہ ناکامی نہ ہوں اے دل تری بے صبریاں صبر سے لے کام خود ہر کام ہوتا جائے گا چھوڑ دے اے دل تمنا زندگی کی چھوڑ دے تو ہلاک گردش ایام ...

    مزید پڑھیے

    بے پردہ اس کا چہرۂ پر نور تو ہوا

    بے پردہ اس کا چہرۂ پر نور تو ہوا کچھ دیر شعبدہ سا سر طور تو ہوا اچھا کیا کہ میں نے کیا ترک آرزو بے صبر دل کو صبر کا مقدور تو ہوا گو اس میں اب نہیں ہیں لڑکپن کی شوخیاں لیکن شباب آنے سے مغرور تو ہوا اب اور التفات سے مقصد ہے کیا ترا بس اے نگاہ مست کہ میں چور تو ہوا تم نے اگر سنا نہیں ...

    مزید پڑھیے