Shahood Alam Aafaqi

شہود عالم آفاقی

شہود عالم آفاقی کی غزل

    ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں

    ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں ٹکرائے ہیں طوفاں سے تلاطم سے لڑے ہیں دل اپنا جلاؤ شب ظلمت کے حریفو کیا غم ہے چراغوں کے اگر قحط پڑے ہیں چڑھنے دو ابھی اور ذرا وقت کا سورج ہو جائیں گے چھوٹے یہی سائے جو بڑے ہیں منزل سے پلٹ آئے ہیں ہم اہل محبت جو سنگ ہدایت تھے وہ رستے میں کھڑے ...

    مزید پڑھیے

    برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر

    برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر چھپر ادھر نہیں ہے ہمارے مکان پر مسجد میں اس کو دیکھ کے حیران رہ گیا تنقید کر رہا تھا جو کل تک اذان پر کاغذ کے بال و پر پہ بھروسہ نہ کیجیئے جانا اگر ہے آپ کو اونچی اڑان پر اب تک رمق حیات کی پیدا نہ ہو سکی کیا میں لہو چھڑکتا رہا ہوں چٹان پر دو چار ...

    مزید پڑھیے

    آداب زندگی سے بہت دور ہو گیا

    آداب زندگی سے بہت دور ہو گیا شہرت ذرا ملی تو وہ مغرور ہو گیا اب رقص خاک و خوں پہ کوئی بولتا نہیں جیسے یہ میرے ملک کا دستور ہو گیا دشمن سے سرحدوں کو بچانا تھا جس کا کام اپنوں کو قتل کرنے پہ مامور ہو گیا گمنام تھا لباس شرافت کی وجہ سے دستار مکر باندھی تو مشہور ہو گیا سورج بھی ...

    مزید پڑھیے

    فن کے شجر پر پھل جو لگے ہیں

    فن کے شجر پر پھل جو لگے ہیں ان میں زیادہ تر کچے ہیں کیسا یہ کل جگ آیا ہے لوگ پڑوسی سے ڈرتے ہیں جھوٹ ہے سب آئے تھے فسادی یہ تو کرشمے وردی کے ہیں کتنے دانشور ہو بھیا جاننے والے جان رہے ہیں چیخ کے لہجہ بول رہا ہے شعر شہودؔ آفاقی کے ہیں

    مزید پڑھیے