Shahood Alam Aafaqi

شہود عالم آفاقی

شہود عالم آفاقی کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں

    ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں ٹکرائے ہیں طوفاں سے تلاطم سے لڑے ہیں دل اپنا جلاؤ شب ظلمت کے حریفو کیا غم ہے چراغوں کے اگر قحط پڑے ہیں چڑھنے دو ابھی اور ذرا وقت کا سورج ہو جائیں گے چھوٹے یہی سائے جو بڑے ہیں منزل سے پلٹ آئے ہیں ہم اہل محبت جو سنگ ہدایت تھے وہ رستے میں کھڑے ...

    مزید پڑھیے

    برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر

    برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر چھپر ادھر نہیں ہے ہمارے مکان پر مسجد میں اس کو دیکھ کے حیران رہ گیا تنقید کر رہا تھا جو کل تک اذان پر کاغذ کے بال و پر پہ بھروسہ نہ کیجیئے جانا اگر ہے آپ کو اونچی اڑان پر اب تک رمق حیات کی پیدا نہ ہو سکی کیا میں لہو چھڑکتا رہا ہوں چٹان پر دو چار ...

    مزید پڑھیے

    آداب زندگی سے بہت دور ہو گیا

    آداب زندگی سے بہت دور ہو گیا شہرت ذرا ملی تو وہ مغرور ہو گیا اب رقص خاک و خوں پہ کوئی بولتا نہیں جیسے یہ میرے ملک کا دستور ہو گیا دشمن سے سرحدوں کو بچانا تھا جس کا کام اپنوں کو قتل کرنے پہ مامور ہو گیا گمنام تھا لباس شرافت کی وجہ سے دستار مکر باندھی تو مشہور ہو گیا سورج بھی ...

    مزید پڑھیے

    فن کے شجر پر پھل جو لگے ہیں

    فن کے شجر پر پھل جو لگے ہیں ان میں زیادہ تر کچے ہیں کیسا یہ کل جگ آیا ہے لوگ پڑوسی سے ڈرتے ہیں جھوٹ ہے سب آئے تھے فسادی یہ تو کرشمے وردی کے ہیں کتنے دانشور ہو بھیا جاننے والے جان رہے ہیں چیخ کے لہجہ بول رہا ہے شعر شہودؔ آفاقی کے ہیں

    مزید پڑھیے