ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں
ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں ٹکرائے ہیں طوفاں سے تلاطم سے لڑے ہیں دل اپنا جلاؤ شب ظلمت کے حریفو کیا غم ہے چراغوں کے اگر قحط پڑے ہیں چڑھنے دو ابھی اور ذرا وقت کا سورج ہو جائیں گے چھوٹے یہی سائے جو بڑے ہیں منزل سے پلٹ آئے ہیں ہم اہل محبت جو سنگ ہدایت تھے وہ رستے میں کھڑے ...