جنگل کٹتے جاتے ہیں
جنگل کٹتے جاتے ہیں شیر بہت گھبراتے ہیں پونچھ اٹھائے پھرتے ہیں ہر آہٹ پہ ڈرتے ہیں کیا جانے کب پیڑ کٹے کیا جانے کب شاخ گرے چڑیاں اڑ کر چلی گئیں بچے چھوٹے یہیں کہیں ہاتھی کو یہ فکر ہوئی چرا نہ لے تالاب کوئی تب وہ کہاں نہائے گا کیسے پیاس بجھائے گا بھالو بھی خاموش ہوا گیدڑ کو افسوس ...