Shafiq Dehlvi

شفیق دہلوی

شفیق دہلوی کی غزل

    دیوانگئ شوق کا ساماں سجا کے لا

    دیوانگئ شوق کا ساماں سجا کے لا ناداں گہر کوئی سر مژگاں سجا کے لا فن کار تو اگر ہے تو فن کا دکھا کمال تصویر یار تا حد امکاں سجا کے لا گلشن پہ ہے خزاں کا تسلط تو غم نہیں دل میں فریب حسن بہاراں سجا کے لا دے ماہتاب بن کے اندھیروں کو روشنی مردہ دلوں کے واسطے درماں سجا کے لا ہم آج ...

    مزید پڑھیے

    جیسے صبح کو سورج نکلے شام ڈھلے چھپ جائے ہے

    جیسے صبح کو سورج نکلے شام ڈھلے چھپ جائے ہے تم بھی مسافر میں بھی مسافر دنیا ایک سرائے ہے راز خودی ہے یہ فرزانو بہتر ہے یہ راز نہ جانو جو خود کو پہچانے ہے وہ دیوانہ کہلائے ہے فہم و خرد سے جوش جنوں تک ہر منزل سے گزرے ہیں ہم تو دیوانے ہیں بھائی ہم کو کیا سمجھائے ہے ہجر کی شب یوں تھپک ...

    مزید پڑھیے

    شب فراق کا مارا ہوں دل گرفتہ ہوں

    شب فراق کا مارا ہوں دل گرفتہ ہوں چراغ تیرہ شبی ہوں میں جلتا رہتا ہوں کبھی کا مار دیا ہوتا زندگی نے مجھے یہ شکر ہے کہ میں زندہ دلی سے زندہ ہوں کوئی فریب تمنا نہ جلوہ اور نہ خیال دیار عشق میں تنہا تھا اور تنہا ہوں زمانہ میری ہنسی کو خوشی سمجھتا ہے میں مسکرا کے جو خود کو فریب دیتا ...

    مزید پڑھیے

    اک کار گراں ہے کھیل نہیں

    اک کار گراں ہے کھیل نہیں زندگی امتحاں ہے کھیل نہیں ہر قدم سوچ کر یہاں رکھنا دشت‌ عمر رواں ہے کھیل نہیں یہ مٹی ہے نہ مٹ سکے گی کبھی اردوئے سخت جاں ہے کھیل نہیں تیرگی شب کی کیوں نہ دم توڑے زخم دل ضو فشاں ہے کھیل نہیں کچھ بھی ممکن ہے دیکھیے کیا ہو لطف چارہ گراں ہے کھیل نہیں جانے ...

    مزید پڑھیے

    دل ٹوٹ چکا تار نظر ٹوٹ رہا ہے

    دل ٹوٹ چکا تار نظر ٹوٹ رہا ہے قسطوں میں مسافر کا سفر ٹوٹ رہا ہے ہر روز بدلتا ہے نیا رنگ زمانہ ہر شخص بہ انداز دگر ٹوٹ رہا ہے تو غور سے دیکھے تو یہ معلوم ہو تجھ کو جو کچھ ہے ترے پیش نظر ٹوٹ رہا ہے کیا جانئے کیوں لوگ تشدد پہ اتر آئے دستار بچاتے ہیں تو سر ٹوٹ رہا ہے منزل ہے کہ اوجھل ...

    مزید پڑھیے