Shafi Aqil

شفیع عقیل

شفیع عقیل کی غزل

    بچے ہوئے تھے جو پتے یہاں خزاؤں سے

    بچے ہوئے تھے جو پتے یہاں خزاؤں سے بکھر گئے ہیں وہی نرم رو ہواؤں سے تپی منڈیر پہ بیٹھا ہوا پرندہ ہے ڈرا ہوا ہے وہ شاید شجر کی چھاؤں سے رتوں نے دیکھ لیا ہے چلن زمینوں کا برس رہی ہے تمازت یہاں گھٹاؤں سے فضائے شب سے کوئی آفتاب گزرا ہے سکوت گونج رہا ہے ابھی صداؤں سے عجیب روپ میں ...

    مزید پڑھیے

    عجیب رت تھی برستی ہوئی گھٹائیں تھیں

    عجیب رت تھی برستی ہوئی گھٹائیں تھیں زمیں نے پیاس کی اوڑھی ہوئی ردائیں تھیں وہ کیسا قافلہ گزرا وفا کی راہوں سے ستم کی ریت پہ پھیلی ہوئی جفائیں تھیں حصار ذات سے نکلا تو آگے صحرا تھا برہنہ سر تھے شجر چیختی ہوائیں تھیں وہ کون لوگ تھے جن کو سفر نصیب نہ تھا وگرنہ شہر میں کیا کیا کڑی ...

    مزید پڑھیے