شبیر ناقد کی غزل

    بہت کچھ لکھا ہے بہت کچھ لکھیں گے

    بہت کچھ لکھا ہے بہت کچھ لکھیں گے یہ طے ہے کہ اہل قلم ہی رہیں گے نہیں ہم نصیبوں سے مایوس بالکل جو ہم بن نہ پائے وہ بچے بنیں گے گنوائے ہیں اوقات اپنے جنہوں نے وہی عمر بھر ہاتھ ملتے رہیں گے رہے گا جو یونہی ستم کا تسلسل تو تنگ آ کے ہم بھی بغاوت کریں گے اگر عدل سے نسل محروم ہوگی تو ...

    مزید پڑھیے

    بھوکی ہے زمیں بھوک اگلتی ہی رہے گی

    بھوکی ہے زمیں بھوک اگلتی ہی رہے گی یہ بھوک مرے پیٹ میں پلتی ہی رہے گی جیون بھی مرا دشت ہے مسکن بھی مرا دشت ہونٹوں پہ مرے پیاس مچلتی ہی رہے گی دل میں نہیں اب پاس رہا چین سکوں کا اک آگ سی دل میں ہے ابلتی ہی رہے گی ہستی کے اجڑنے کا بھلا دکھ مجھے کیوں ہو یہ ٹھوکریں کھا کھا کے سنبھلتی ...

    مزید پڑھیے

    میں بھی روشن دماغ رکھتا ہوں

    میں بھی روشن دماغ رکھتا ہوں چاند جیسا چراغ رکھتا ہوں میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہے گرچہ سینے میں داغ رکھتا ہوں کیا مرے پاس کام پت جھڑ کا دل میں سر سبز باغ رکھتا ہوں مجھ سے کچھ تم چھپا نہ پاؤ گے اہتمام سراغ رکھتا ہوں پیاس کیسے مجھے لگے ناقدؔ اک لبالب ایاغ رکھتا ہوں

    مزید پڑھیے

    ہر جانب سے آئے پتھر

    ہر جانب سے آئے پتھر اشک آنکھوں میں لائے پتھر اذن ملا جب گویائی کا ہم بولے اور کھائے پتھر جب بھی کوئے یار کو نکلے استقبال کو آئے پتھر کیسی یہ تقریب ہے یارو تحفے میں تم لائے پتھر جب لوگوں سے میں اکتایا اپنے میت بنائے پتھر توڑ بھی دیتا ہے یہ ناقدؔ لیکن ٹوٹ بھی جائے پتھر

    مزید پڑھیے

    میں رتجگوں کا سفیر ٹھہرا تھا کتنی راتیں گزار آیا

    میں رتجگوں کا سفیر ٹھہرا تھا کتنی راتیں گزار آیا ریاض تھا با رسوخ میرا مرے سخن میں نکھار لایا کوئی بھی حالت نہیں دوامی کوئی بھی صورت نہیں مدامی حیات اپنی ہے وہ خزانہ نہیں ہے جس میں قرار مایا نہ مجھ پہ لطف سحر ہوا ہے نہ مجھ پہ وا کوئی در ہوا ہے نہ میں نے دیکھی ہے رت سہانی نہ مجھ ...

    مزید پڑھیے