میں اگر فکر کے شہ پر سے الگ ہو جاؤں
میں اگر فکر کے شہ پر سے الگ ہو جاؤں اپنے اندر کے سخنور سے الگ ہو جاؤں آئنہ گرد سے باطل کی نکل آئے گا حق کی تائید میں لشکر سے الگ ہو جاؤں آسماں بھی نہیں روئے گا لہو کے آنسو میں اگر شام کے منظر سے الگ ہو جاؤں تپتے صحرا کی زمیں کو بھی ضرورت ہے مری لیکن اب کیسے سمندر سے الگ ہو ...