Sayed Zia Alvi

سید ضیا علوی

  • 1946

سید ضیا علوی کی غزل

    کسی کو کچھ نہیں ملتا ہے آرزو کے بغیر

    کسی کو کچھ نہیں ملتا ہے آرزو کے بغیر مگر یہ کون ملا مجھ کو جستجو کے بغیر عجیب طرز ملاقات تھا سر محفل پیام سارے ملے مجھ کو گفتگو کے بغیر مرے جگر کا لہو ہے وفاؤں کا ضامن حنا بھی اس کی ادھوری ہے اس لہو کے بغیر خمار و کیف میں آنکھیں ہیں میکدے جیسی نشے میں چور ہوں میں بھی کسی سبو کے ...

    مزید پڑھیے

    تیرے تصورات سے بچنا ہے اب محال بھی

    تیرے تصورات سے بچنا ہے اب محال بھی کچھ تو ہے تیری فکر بھی کچھ ہے ترا خیال بھی اے دوست آ کے دیکھ لے عشق کا یہ کمال بھی تو ہی مرا جواب ہے تو ہی مرا سوال بھی آئی تمہاری یاد جب ڈھل گئی لمحوں میں صدی ایسا لگا کہ رک گئی گردش ماہ و سال بھی دوری کے باوجود بھی ٹکرا رہی ہے سانس اب ایسی ...

    مزید پڑھیے

    اس کو دیکھا تو دکھا کچھ بھی نہیں

    اس کو دیکھا تو دکھا کچھ بھی نہیں لٹ گیا سب کچھ بچا کچھ بھی نہیں سوچ کر نعرہ لگایا عشق نے وہ ملا ہے تو گیا کچھ بھی نہیں عشق زندہ یار زندہ باد ہے اس سے آگے کا پتا کچھ بھی نہیں سچ بتاؤں درد بھی سوغات ہے ورنہ آہوں کو ملا کچھ بھی نہیں ہم کو پاگل کہہ رہا ہے یہ جہاں اس کو لگتا ہے ہوا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    اشک پیتے رہے ہر جام پہ ہنستے ہنستے

    اشک پیتے رہے ہر جام پہ ہنستے ہنستے رو لئے خوب ترے نام پہ ہنستے ہنستے اس طرح چلتے رہیں راہ محبت میں سدا ٹھوکریں کھائیں ہر اک گام پہ ہنستے ہنستے کیوں خطا ہو گئی دانستہ ترے کوچے میں کیوں نظر پہنچی ترے بام پہ ہنستے ہنستے عشق میں جذبۂ عاشق بھی عجب ہوتا ہے جان دیتا ہے ترے نام پہ ...

    مزید پڑھیے

    قطرے کو تم دریا کر دو

    قطرے کو تم دریا کر دو مجھ کو اپنے جیسا کر دو دل میں اپنا پیار جگا کر کاش محبت والا کر دو مجھ کو اپنا کہہ کر سب سے میرے پیچھے دنیا کر دو ایسی آندھی پیار کی بھیجو دل کا گلشن صحرا کر دو تیرے سوا میں کچھ بھی نہ دیکھوں آنکھ پہ ایسا پردا کر دو دھڑکن آہیں سب ہیں سونی سانسوں کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    بستر ہجر کی شکنوں پہ کہانی لکھ دے

    بستر ہجر کی شکنوں پہ کہانی لکھ دے آج کی رات مرے نام سہانی لکھ دے بیتے سالوں کی طرح دشمن جانی لکھ دے اب کے خط میں تو کوئی بات پرانی لکھ دے پیاس اس ریت کی اشکوں سے بجھاؤں کیسے خشک دریا کے مقدر میں بھی پانی لکھ دے حسن کا ڈھلنا ضروری ہے مگر اے مالک اس کے چہرے پہ مرے دل کی جوانی لکھ ...

    مزید پڑھیے

    دل برباد میں پھر اس کی تمنا کیوں ہے

    دل برباد میں پھر اس کی تمنا کیوں ہے ہر طرف شام ہے لیکن یہ اجالا کیوں ہے جس کی یادوں کے دیئے ہم نے بجھا رکھے ہیں پھر وہی شخص تصور میں اترتا کیوں ہے جانتا ہوں وہ مسافر ہے سفر کرتا ہے قریۂ جاں میں مگر آج وہ ٹھہرا کیوں ہے تھک چکا ہے تو اندھیروں میں رہے میری طرح چاند کو کس کی طلب ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ کے ساحل پر آتے ہی اشک ہمارے ڈوب گئے

    آنکھ کے ساحل پر آتے ہی اشک ہمارے ڈوب گئے غم کا ساون اتنا برسا سارے سہارے ڈوب گئے اس کو کھیل کہیں قسمت کا یا ہم دریا کی سازش طوفانوں سے بچ نکلے تو آ کے کنارے ڈوب گئے جذبۂ محبت یہ تو بتا کب آئے گا آنے والا رات سمٹتی جاتی ہے اور چاند ستارے ڈوب گئے نیل گگن پر اڑتے پنچھی لوٹ کے آ جا ...

    مزید پڑھیے

    دل کا دلبر جب سے دل کی دھڑکن ہونے والا ہے

    دل کا دلبر جب سے دل کی دھڑکن ہونے والا ہے سونا سونا میرا آنگن گلشن ہونے والا ہے اس کی آنکھوں میں بھی ہر دم عکس مرا ہی رہتا ہے اب تو میرا چہرہ اس کا درپن ہونے والا ہے ناز کروں یا فخر کروں میں سب کچھ ہے لازم مجھ کو رفتہ رفتہ دل میں اس کا مسکن ہونے والا ہے پیار کے جذبے اس کے دل میں ...

    مزید پڑھیے