ثروت مختار کی غزل

    دیکھ لو رنگ گر مرے تل کے

    دیکھ لو رنگ گر مرے تل کے بھول جاؤ گے رنگ جھلمل کے اک غزل کیا سنا دی محفل میں با خدا رہ گئے سبھی ہل کے تو مقلد تھا عقل والوں کا تو نہ سمجھا معاملے دل کے کوئی مقصد نہیں ہے ملنے کا اچھا لگتا ہے آپ سے مل کے گل بدن کب تو ان کو توڑے گا پھول تھکنے لگے ہیں کھل کھل کے زخم کب اس قدر نمایاں ...

    مزید پڑھیے

    اک نگاہ بے رخی سے غرق ہوتے ذائقے

    اک نگاہ بے رخی سے غرق ہوتے ذائقے لو چکھو تحلیل غرب و شرق ہوتے ذائقے تب سمجھ میں آ بھی جاتے ان کی دوری کے سبب جب زمین و آسماں کے فرق ہوتے ذائقے تو سمجھ سکتا نہیں ہے عشق کی معراج کو تو نے چکھے ہی نہیں ہیں برق ہوتے ذائقے عمر گزری پر نہ سمجھا ذائقوں کے فرق کو زرق لگتے ذائقے تھے برق ...

    مزید پڑھیے

    ملے شوقین باتیں ہو رہی ہیں

    ملے شوقین باتیں ہو رہی ہیں بڑی رنگین باتیں ہو رہی ہیں مرے زخموں کو شاید پڑھ لیا ہے تبھی نمکین باتیں ہو رہی ہیں اسے بولو کہ پردے میں رہے وہ کرو تلقین باتیں ہو رہی ہیں وہاں دو چار باتیں اور کر لیں جہاں دو تین باتیں ہو رہی ہیں میاں زخموں کا عقدہ کھل رہا ہے کرو تدفین باتیں ہو رہی ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے

    ہمیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے یقیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے مرے خیال کو چوری کیا کیا سو کیا زمیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے مکاں بناتے رہے بام و در سجاتے رہے مکیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے اسیر عام سے چہرے کے ہو کے بیٹھے ہیں حسیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کے سب ابھرتے اور ڈھلتے زاویے

    زندگی کے سب ابھرتے اور ڈھلتے زاویے نقش ہیں نظروں میں نظروں کے بدلتے زاویے دھڑکنیں بے تابیاں پر کیف بانہوں کا حصار سانس کی حدت سے جذبوں کے پگھلتے زاویے منقطع کرنے لگی ہیں ہوش سے ادراک سے اک نظر کی وسعتیں قوسیں مچلتے زاویے رفتہ رفتہ پھول چہروں کی چمک کو کھا گئے جنس پرور بھوکی ...

    مزید پڑھیے