Sarwar Arman

سرور ارمان

سرور ارمان کی غزل

    ان آنکھوں میں کئی سپنے کئی ارمان تھے لیکن

    ان آنکھوں میں کئی سپنے کئی ارمان تھے لیکن سکوت لب کی تہہ میں کس قدر طوفان تھے لیکن عقیدت کب تھی اسناد شعور و فہم کی قائل ہجوم شہر کا کچھ پارسا ایمان تھے لیکن رسائی منزل مقصود تک ممکن سی لگتی تھی بظاہر آگہی کے مرحلے آسان تھے لیکن لگا کر ان کو دل سے میں سفر کرتا رہا برسوں وہ کچھ ...

    مزید پڑھیے

    زمانوں سے در امکان پر رکھے ہوئے ہیں

    زمانوں سے در امکان پر رکھے ہوئے ہیں چراغوں کی طرح طوفان پر رکھے ہوئے ہیں فضاؤں میں مہک جلنے کی بو پھیلی ہوئی ہے کسی نے پھول آتش دان پر رکھے ہوئے ہیں ذرا سا بھی گماں تیری شباہت کا تھا جن پر وہ سب چہرے مری پہچان پر رکھے ہوئے ہیں خوشی کو ڈھونڈھنا ممکن نہیں اس کیفیت میں کچھ ایسے ...

    مزید پڑھیے

    سرکشی کو جب ہم نے ہم رکاب رکھنا ہے

    سرکشی کو جب ہم نے ہم رکاب رکھنا ہے ٹوٹنے بکھرنے کا کیا حساب رکھنا ہے ایک ایک ساعت میں زندگی سمونی ہے ایک ایک جذبے میں انقلاب رکھنا ہے رات کے اندھیروں سے جنگ کرنے والوں نے صبح کی ہتھیلی پر آفتاب رکھنا ہے ہم پہ اس سے واجب ہیں کوششیں بغاوت کی تم نے جس قبیلے کو کامیاب رکھنا ہے رکھ ...

    مزید پڑھیے

    شب تاریک چپ تھی در و دیوار چپ تھے

    شب تاریک چپ تھی در و دیوار چپ تھے نمود صبح نو کے سبھی آثار چپ تھے تماشا دیکھتے تھے ہمارے ضبط غم کا مسلط ایک ڈر تھا لب اظہار چپ تھے ہوائیں چیختی تھیں فضائیں گونجتی تھیں قبیلہ بٹ رہا تھا مگر سردار چپ تھے گراتا کون بڑھ کر بھلا دیوار ظلمت اجالوں کے پیمبر پس دیوار چپ تھے متاع آبرو ...

    مزید پڑھیے

    روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی

    روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی رنگ سے محروم ہر تصویر کر دی جائے گی عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں بے گناہی لائق تعزیر کر دی جائے گی ہر نظر کو آرزوؤں کا سمندر بخش کر ہر زباں پر تشنگی تحریر کر دی جائے گی دب کے رہ جائیں گے جذبوں کے اجالے ایک دن ظلمت افلاس عالمگیر کر دی ...

    مزید پڑھیے

    سحر و شام میں تنظیم کہاں ہوتی ہے

    سحر و شام میں تنظیم کہاں ہوتی ہے خواہش صبح کی تجسیم کہاں ہوتی ہے لوٹ لے جاتا ہے بس چلتا ہے جس کا جتنا روشنی شہر میں تقسیم کہاں ہوتی ہے ان محلوں میں جہاں ہم نے گزاری ہے حیات مدرسے ہوتے ہیں تعلیم کہاں ہوتی ہے شہریاروں نے اجاڑا ہو جسے ہاتھوں سے پھر سے آباد وہ اقلیم کہاں ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    قربتیں نہ بن پائے فاصلے سمٹ کر بھی

    قربتیں نہ بن پائے فاصلے سمٹ کر بھی ہم کہ اجنبی ٹھہرے آپ سے لپٹ کر بھی حادثوں نے ہر صورت اپنی زد میں رکھنا تھا ہم نے چل کے دیکھا ہے راستے سے ہٹ کر بھی آگہی کی منزل سے لوٹ جائیں ہم کیسے اس جگہ نہیں جائز دیکھنا پلٹ کر بھی ہم نے لاکھ سمجھایا دل مگر نہیں مانا مطمئن سا لگتا ہے کرچیوں ...

    مزید پڑھیے

    تلخیص کے بدن میں تفسیر بولتی ہے

    تلخیص کے بدن میں تفسیر بولتی ہے تکمیل آرزو میں تدبیر بولتی ہے یہ معجزہ بھی دیکھا ہم نے کمال فن کا چپ ہو اگر مصور تصویر بولتی ہے تزئین انجمن کے ہم نے جو خواب دیکھے اب کرچیوں میں ان کی تعبیر بولتی ہے وہ لب کشا ہو جس دم لگتا ہے ہر کسی کو ہر لفظ میں اسی کی تقدیر بولتی ہے بنتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    اک عجب کیفیت ہوش ربا طاری تھی

    اک عجب کیفیت ہوش ربا طاری تھی قریۂ جاں میں کسی جشن کی تیاری تھی سر جھکائے ہوئے مقتل میں کھڑے تھے جلاد تختۂ دار پہ لٹکی ہوئی خودداری تھی خون ہی خون تھا دربار کی دیواروں پر قابض تخت وراثت کی ریاکاری تھی ایک ساعت جو تری زلف کے سائے میں کٹی ہجر بر دوش زمانوں سے کہیں بھاری تھی اور ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح

    ہم تو موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح لوگ نکلے ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح جانے کیوں وقت بھی آنکھیں بھی قلم بھی لب بھی آج خاموش ہیں گزرے ہوئے سالوں کی طرح حاجتیں زیست کو گھیرے میں لیے رکھتی ہیں خستہ دیوار سے چمٹے ہوئے جالوں کی طرح رات بھیگی تو سسکتی ہوئی خاموشی سے آسماں ...

    مزید پڑھیے