Sarfraz Danish

سرفراز دانش

سرفراز دانش کی غزل

    اس سے پہلے کہ سر اتر جائیں

    اس سے پہلے کہ سر اتر جائیں ہم اداسی میں رنگ بھر جائیں زخم مرجھا رہے ہیں رشتوں کے اب اٹھیں دوستوں کے گھر جائیں غم کا سورج تو ڈوبتا ہی نہیں دھوپ ہی دھوپ ہے کدھر جائیں اپنا احساس بن گیا دشمن جب بھی چاہا کہ زخم بھر جائیں وار چاروں طرف سے ہیں ہم پر شاید اس معرکے میں سر جائیں سامنا ...

    مزید پڑھیے

    آرزوؤں کی رتیں بدلے زمانے ہو گئے

    آرزوؤں کی رتیں بدلے زمانے ہو گئے زندگی کے ساتھ سب رشتے پرانے ہو گئے آبلہ پائی نے ایسی شوخیاں کیں ریت سے وقت کے تپتے ہوئے صحرا سہانے ہو گئے چند لمحے کو تو خوابوں میں بھی آ کر جھانک لے زندگی تجھ سے ملے کتنے زمانے ہو گئے رات دروازے پہ بیٹھی تھی سو بیٹھی ہی رہی گھر ہمارے روشنی کے ...

    مزید پڑھیے

    شہر بھر کے آئینوں پر خاک ڈالی جائے گی

    شہر بھر کے آئینوں پر خاک ڈالی جائے گی آج پھر سچائی کی صورت چھپا لی جائے گی اس کی آنکھوں میں لپکتی آگ ہے بے حد شدید سوچتا ہوں یہ قیامت کیسے ٹالی جائے گی مشتعل کر دے گا اس کو اک ذرا سا احتجاج مجھ پہ کیا گزری ہے اس پر خاک ڈالی جائے گی قید کا احساس بھی ہوگا نہ ہم کو دوستو یوں ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    سفینہ موج بلا کے لیے اشارہ تھا

    سفینہ موج بلا کے لیے اشارہ تھا نہ پھر ہوا تھی موافق نہ پھر کنارا تھا ہم اپنے جلتے ہوئے گھر کو کیسے رو لیتے ہمارے چاروں طرف ایک ہی نظارا تھا یہ واقعہ جو سنیں گے تو لوگ ہنس دیں گے ہمیں ہماری ہی پرچھائیوں نے مارا تھا طلسم توڑ دیا اک شریر بچے نے مرا وجود اداسی کا استعارا تھا یہ ...

    مزید پڑھیے

    لمحہ لمحہ تجربہ ہونے لگا

    لمحہ لمحہ تجربہ ہونے لگا میں بھی اندر سے نیا ہونے لگا شدت غم نے حدیں سب توڑ دیں ضبط کا منظر ہوا ہونے لگا پھر نئے ارمان شاخوں کو ملے پتہ پتہ پھر ہرا ہونے لگا غور سے ٹک آنکھ نے دیکھا ہی تھا مجھ سے ہر منظر خفا ہونے لگا رات کی سرحد یقیناً آ گئی جسم سے سایا جدا ہونے لگا میں ابھی تو ...

    مزید پڑھیے