Sardar Saleem

سردار سلیم

  • 1973

سردار سلیم کی غزل

    دن بہ دن صفحۂ ہستی سے مٹا جاتا ہوں

    دن بہ دن صفحۂ ہستی سے مٹا جاتا ہوں ایک جینے کے لیے کتنا مرا جاتا ہوں اپنے پیروں پہ کھڑا بولتا پیکر ہوں مگر آہٹوں کی طرح محسوس کیا جاتا ہوں تو بھی جیسے مری آنکھوں میں کھنچا جاتا ہے میں بھی جیسے تری سانسوں سما جاتا ہوں نور کی شاخ سے ٹوٹا ہوا پتا ہوں میں وقت کی دھوپ میں معدوم ہوا ...

    مزید پڑھیے

    آج دیوانے کا ذوق دید پورا ہو گیا

    آج دیوانے کا ذوق دید پورا ہو گیا تجھ کو دیکھا اور اس کے بعد اندھا ہو گیا دھوپ کے ہاتھوں پہ بیعت کر چکی ہیں ٹہنیاں رنگ سارے سبز پتوں کا سنہرا ہو گیا کان دھرتا ہی نہیں کوئی مری آواز پر ایسا لگتا ہے کہ سارا شہر مردہ ہو گیا سایۂ دیوار کو اوڑھے ہوئے تھے سب کے سب گر گئی دیوار گھر کا ...

    مزید پڑھیے

    فکر و احساس کے تپتے ہوئے منظر تک آ

    فکر و احساس کے تپتے ہوئے منظر تک آ میرے لفظوں میں اتر کر مرے اندر تک آ کہیں ایسا نہ ہو رک جائیں قلم کی سانسیں اے مری جان غزل اپنے سخن ور تک آ ورنہ خوابوں کی تپش تجھ کو جلا ڈالے گی میری جاگی ہوئی نیندوں کے سمندر تک آ سرد کمرے کی سلگتی ہوئی تنہائی میں میری سانسوں سے نکل کر مرے بستر ...

    مزید پڑھیے

    عجب ہیں صورت حالات اب کے

    عجب ہیں صورت حالات اب کے ہوئی برسات میں برسات اب کے بدن میں پھول بھی چبھنے لگے ہیں بہت نازک ہیں احساسات اب کے ذرا چوکنا چوکنا ہوں میں بھی ہے دنیا بھی لگائے گھات اب کے بنا دوں گا ترے چہرے کا جھومر لگا جو چاند میرے ہاتھ اب کے لگی ہے شرط میرے آنسوؤں کی سمندر کو ملے گی مات اب ...

    مزید پڑھیے

    وہم جیسی شکوک جیسی چیز

    وہم جیسی شکوک جیسی چیز عمر ہے بھول چوک جیسی چیز کیسے رکھیں ضمیر کو محفوظ پیٹ میں لے کے بھوک جیسی چیز گھول دی ہے غزل کے لہجے میں میں نے کوئل کی کوک جیسی چیز درد بن کر تری جدائی کا دل میں اٹھتی ہے ہوک جیسی چیز کاش ہوتی حسین لوگوں میں کوئی حسن سلوک جیسی چیز مصلحت کی بنا پہ لوگ ...

    مزید پڑھیے

    ایک ہی زندہ بچا ہے یہ نرالا پاگل

    ایک ہی زندہ بچا ہے یہ نرالا پاگل جھوٹ کے شہر میں سچ بولنے والا پاگل ہاتھوں میں پھول لیے آئے ہیں سب لوگ جہاں لے کے آیا ہے وہاں پاؤں کا چھالا پاگل اس کی آنکھوں میں عجب نور تھا دانائی کا تم نے محفل سے جسے کہہ کے نکالا پاگل دھوپ ہے پھیلی ہوئی شرق سے تا غرب مگر بانٹتا پھرتا ہے دنیا ...

    مزید پڑھیے

    خموشی میں چھپے لفظوں کے حلیے یاد آئیں گے

    خموشی میں چھپے لفظوں کے حلیے یاد آئیں گے تری آنکھوں کے بے آواز لہجے یاد آئیں گے تصور ٹھوکریں کھاتے ہوئے قدموں سے الجھے گا ابھرتی ڈوبتی منزل کے رستے یاد آئیں گے مجھے معلوم ہے دم توڑ دے گی آگہی میری جو لمحے بھولنے کے ہیں وہ لمحے یاد آئیں گے کبھی اپنے اکیلے پن کے بارے میں جو سوچو ...

    مزید پڑھیے

    بنا دے گی زمیں کو آج شاید آسماں بارش

    بنا دے گی زمیں کو آج شاید آسماں بارش کہ دھوئے جا رہی ہیں گھر کی ساری کھڑکیاں بارش نئے صدمات کا سیلاب آیا دل کی بستی میں نگل جائے نہ تیری یاد کی یہ کشتیاں بارش کھلی جو آنکھ تو چہرے پہ جگ مگ تھی پھواروں کی کہ ملنے آئی تھی کل رات مجھ سے ناگہاں بارش بدن سے جب الگ کرتی ہو تم بھیگے ...

    مزید پڑھیے

    موجۂ ریگ روان غم میں بہہ کے دیکھنا

    موجۂ ریگ روان غم میں بہہ کے دیکھنا مفلسی میں دوستوں کے ساتھ رہ کے دیکھنا دامن اظہار میں جذبے سما سکتے ہیں نہیں بات پھر بھی بات ہے اک بار کہہ کے دیکھنا خود کو مٹی کا گھروندا فرض ہی کرنا نہیں آندھیوں کی زد میں رہنا اور ڈھہ کے دیکھنا دل کے سناٹے میں خوشبو کے دریچے کھل گئے دستکوں ...

    مزید پڑھیے

    بڑھ رہے ہیں شام کے موہوم سائے چل پڑو

    بڑھ رہے ہیں شام کے موہوم سائے چل پڑو زندگی کی لاش کاندھوں پر اٹھائے چل پڑو خیر مقدم کر رہی ہیں ٹھوکریں کس شان سے پاؤں کے چھالے یہ کہہ کر مسکرائے چل پڑو اوڑھ لو سر پر دکانوں دفتروں کے سائباں جان لیوا ہیں مکانوں کے کرائے چل پڑو پھر قدوم شوق کو چھونے لگی آوارگی پھر بلاوے کوچۂ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2