Saraswati Saran Kaif

سرسوتی سرن کیف

سرسوتی سرن کیف کی غزل

    سر خوشی میرے لئے اسباب غم میرے لئے

    سر خوشی میرے لئے اسباب غم میرے لئے موجزن ہے جیسے دریائے کرم میرے لئے ہر ستم میرے لئے ہے ہر کرم میرے لئے حسن کے جلوے ہیں سارے بیش و کم میرے لئے کیا حقیقت ہے غم ہستی کی میرے سامنے آئے دن ہی گردن مینا ہے خم میرے لئے عشق کی بے تابیاں ہیں حسن کی رعنائیاں ہو گئے ہیں زیست کے ساماں بہم ...

    مزید پڑھیے

    کھاتے ہیں ہم ہچکولے اس پاگل سنسار کے بیچ

    کھاتے ہیں ہم ہچکولے اس پاگل سنسار کے بیچ جیسے کوئی ٹوٹی کشتی پھنس جائے منجدھار کے بیچ ان کے آگے گھنٹوں کی عرض وفا اور کیا پایا ایک تبسم مبہم سا اقرار اور انکار کے بیچ دونوں ہی اندھے ہیں مگر اپنے اپنے ڈھب کے ہیں ہم تو فرق نہ کر پائے کافر اور دیں دار کے بیچ عشق پہ بو الہوسی کا طعن ...

    مزید پڑھیے

    کہیں یہ تسکین دل نہ دیکھی کہیں یہ آرام جاں نہ دیکھا

    کہیں یہ تسکین دل نہ دیکھی کہیں یہ آرام جاں نہ دیکھا تمہارے در کی جو خاک پائی تو ہم نے سوئے جناں نہ دیکھا بڑی چمک آفتاب میں تھی عجب دمک ماہتاب میں تھی اچھال دی خاک دل جو ہم نے کسی کو پھر ضو فشاں نہ دیکھا اگر مقدر کرے نہ یاری تو فرق کیا ہے کوئی جگہ ہو چلو وہ قید قفس ہی دیکھی پھنکا ...

    مزید پڑھیے

    جینا مرنا دونوں محال

    جینا مرنا دونوں محال عشق بھی ہے کیا جی کا وبال مال و منال و جاہ و جلال اپنی نظر میں وہم و خیال ہم نہ سمجھ پائے اب تک دنیا کی شطرنجی چال کچھ تو شہ بھی تمہاری تھی ورنہ دل کی اور یہ مجال کس کس سے ہم نبٹیں گے ایک ہے جان اور سو جنجال مست کو گرنے دے ساقی ہاں اس کے شاعر کو سنبھال ہم ...

    مزید پڑھیے

    ستم گر تجھ سے ہم کب شکوۂ بیداد کرتے ہیں

    ستم گر تجھ سے ہم کب شکوۂ بیداد کرتے ہیں ہمیں فریاد کی عادت ہے ہم فریاد کرتے ہیں متاع زندگانی اور بھی برباد کرتے ہیں ہم اس صورت سے تسکین دل ناشاد کرتے ہیں ہواؤ ایک پل کے واسطے للہ رک جاؤ وہ میری عرض پر دھیمے سے کچھ ارشاد کرتے ہیں نہ جانے کیوں یہ دنیا چین سے جینے نہیں دیتی کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ہم سوز دل بیاں کریں تم سے کہاں تلک

    ہم سوز دل بیاں کریں تم سے کہاں تلک جلنے لگی ہے اب تو ہماری زباں تلک کچھ بے کسیٔ راہرو غم نہ پوچھئے ملتی نہیں ہے گرد رہ کارواں تلک شرما کے لوٹ آئے نہ جب کچھ اثر ہوا نالے ہمارے پہنچے تو تھے آسماں تلک امید بادہ کس کو ہے خون جگر پیو ہے محتسب کے روپ میں پیر مغاں تلک راز و نیاز عشق کی ...

    مزید پڑھیے

    چلے گی نہ اے دل کوئی گھات ہرگز

    چلے گی نہ اے دل کوئی گھات ہرگز نہیں ان سے ہوگی ملاقات ہرگز بہت کوشش ضبط کی ہم نے لیکن ٹھہرتے نہیں دل میں جذبات ہرگز تو بقراط دوراں ہے ناصح مگر ہم سنیں گے نہ تیرے مقالات ہرگز جو جاں بازیوں کی چلے چال اس کو بساط وفا پر نہ ہو مات ہرگز امیدوں کے جگنو چمکتے ہیں لیکن نہ ٹھہریں گے دم ...

    مزید پڑھیے

    ایک نازک دل کے اندر حشر برپا کر دیا

    ایک نازک دل کے اندر حشر برپا کر دیا ہائے ہم نے کیوں یہ اظہار تمنا کر دیا اب نہیں ہے خشک آنکھوں میں سوا وحشت کے کچھ انتہائے غم نے کیا دریا کو صحرا کر دیا ان کے در کو چھوڑ کر در در بھٹکتے ہم رہے وحشت دل نے عجب انجام الٹا کر دیا وسوسے امید کے دم سے جو تھے سب مٹ گئے انتہائے درد نے غم ...

    مزید پڑھیے