سلمان ثروت کی نظم

    مبادا

    بڑی حیران کن ہے حقیقت خواب ہے یا خواب سے آگے کی منزل یہ دنیا خواب کی دنیا پہ سبقت لے گئی ہے فسانوں سے فزوں تر زندگی ہے گماں کی سرحدیں ہوں یا تخیل کی اڑانیں خرد کی جست سے پیچھے کہیں پیچھے دکھائی دے رہی ہیں خرد کی دسترس میں کیا نہیں ہے نہیں ہے غیر ممکن کبھی امکان سے جو ماورا تھا فقط ...

    مزید پڑھیے

    ٹریفک

    یہ شہر ستم مار دیتا ہے مجھ کو سر راہ شام و سحر کے کنارے نظار و پریشاں میں شوریدہ سر ازدحام کسالت میں گم اپنے چاروں طرف اک نظر ڈالتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں کہ یہ گاڑیاں ہیں یا گاڑی نما وحشتیں رینگتی ہیں مجھے وحشتیں ڈس رہی ہیں تھکن سے بدن میں دراڑیں پڑیں ہیں کوئی منزل بے نشاں تک نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مڈل کلاس

    سفید پوشی کی اوٹ میں بے شمار آہیں چھپی ہوئی ہیں قرین جاں ہے وہی سبک سار زندگی کا خیال اور بس وہ پر سکوں دن وہ جھلملاتا جہاں کہ جس میں ہم اپنے حصے کی زندگی کاش والہانہ گزار پاتے یہ چھوٹی چھوٹی سی خواہشیں تھیں کسی بڑے شہر کی کئی منزلہ عمارت سے گر پڑیں ہیں پھر ان کا ملبہ سمیٹ کر ...

    مزید پڑھیے

    شور آلود

    ایک مدت ہوئی دشت‌ آواز میں کوئی تنہا صدا خامشی کی نوا میں نہیں سن سکا گوش مفلس مرے اب ترسنے لگے ہیں کہ فطرت کی آواز غم ہو گئی زندگی اپنے ہنگام میں کھو گئی شورش گوش و لب کاش کہ تھم سکے تو مجھے خود کلامی کا موقع ملے میں تخیل کی آہٹ سنوں اور تخلیق کے ان سنے گیت گانے لگوں شور و غل کے ...

    مزید پڑھیے

    نثری نظم کی منظوم کتھا

    اور پھر کچھ یوں ہوا لفظ کی تکرار سے مرتعش اظہار سے عقدۂ دشوار سے شاعری اکتا گئی شاعری کی بے کراں موج تخیل یوں اٹھی تنگ نائے نظم و نغمہ گم ہوئی امتیاز بحر و بر مٹتا گیا اہتمام‌ ذوق تر جاتا رہا چشمۂ‌ وہم و گماں پھوٹتا ہے وادئ عجز بیاں کے وسط سے پھیلتی ہے خیرگی لمحۂ معکوس ہے آب جوئے ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم کہ غزل کہیں جسے

    روایتوں کا لباس پہنے گزشتگاں کا نصاب تھامے طرازیت کے نگار خانوں میں بین کرتی گھٹن زدہ قافیوں ردیفوں کے درمیاں منتشر خیالوں کے بوجھ اپنے دل حزیں پر اٹھائے پھرتی ہوئی اکائی وفور تخلیق سے پریشاں قدم قدم فرد فرد ہوتی بکھر رہی ہے اسی کے جز ہیں جو اس پہ حاوی ہوئے تو ایسے کہ آپ اپنی ...

    مزید پڑھیے

    شہر‌ زادے

    اس دور کے ہیں قصہ گو ہم شہر زادوں کی سنو یہ داستان زیست ہے کچھ خواب کی تعبیر ہے کچھ درد کی تمثیل ہے آئندگاں کا شہر یا ہے رفتگاں کی آرزو اک گہما گہمی کو بہ کو پھیلی ہوئی ہے چار سو ایجاد در ایجاد ہوتی خواہشیں اور جستجو ہر سمت میں بڑھتا ہوا یہ کار زار رنگ بو آسائشوں کے اس گھنے جنگل ...

    مزید پڑھیے

    سیلفی

    نارسیسس کے پہلو میں بیٹھے ہوئے عکس اپنا ہی تالاب میں دیکھ کر کتنی صدیوں سے اپنی ہی الفت میں گم خود پسندی کے مارے ہوئے لوگ تھے خود نمائی کے زیر اثر آ گئے آئینے کا فسوں اس قدر بڑھ گیا خود کو تصویر کرنے کی خواہش اٹھی اپنے ہاتھوں میں اپنی ہی آنکھیں لیے مختلف زاویوں سے نظر خود پہ ...

    مزید پڑھیے