سلمان ثروت کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    ہزار رنگ یہ وحشت قدم قدم پہ کھلی

    ہزار رنگ یہ وحشت قدم قدم پہ کھلی کہ زندگی کی حقیقت قدم قدم پہ کھلی مرے وجود کا عقدہ کبھی بھی کھل نہ سکا مرے خیال کی وسعت قدم قدم پہ کھلی صراط جاں پہ ہمیشہ سفر طلب ہی رہے مسافتوں سے عقیدت قدم قدم پہ کھلی وفا کی راہ میں چپ چاپ چلتے رہنے سے گریز کوش محبت قدم قدم پہ کھلی دیار عشق ...

    مزید پڑھیے

    جہان فکر میں مثل ہوا چلتا رہا ہوں میں

    جہان فکر میں مثل ہوا چلتا رہا ہوں میں لئے گرد خرد چاروں دشا چلتا رہا ہوں میں سراغ آگہی کو میں کوئی منزل سمجھ بیٹھا سراب عقل کی جانب سدا چلتا رہا ہوں میں نورد کائنات نو ہوں لیکن اجنبی سا ہوں مشینی دور سے ہٹ کر ذرا چلتا رہا ہوں میں مجھے تعبیر کی خواہش تھی یا شاید نہیں بھی تھی علم ...

    مزید پڑھیے

    سر طوفان غم اکثر سہارا ڈھونڈ لیتے ہیں

    سر طوفان غم اکثر سہارا ڈھونڈ لیتے ہیں اداسی کے سمندر میں کنارہ ڈھونڈ لیتے ہیں کبھی تو سامنے کی بات بھی ہم پر نہیں کھلتی کبھی تہداریوں میں گم اشارہ ڈھونڈ لیتے ہیں طبیعت رنگ میں آئے تو ہم چشم تصور سے کسی بے جان منظر میں نظارہ ڈھونڈھ لیتے ہیں بدل ڈالے ہیں کتنے گھر خوشی کے واسطے ...

    مزید پڑھیے

    کئی سلسلوں سے جڑا ہوا یہ جو زندگی کا سفر رہا

    کئی سلسلوں سے جڑا ہوا یہ جو زندگی کا سفر رہا نئی منزلوں کی تلاش میں یہ رہین راہ گزر رہا وہ جو لوگ میرے خلوص کا بڑا برملا سا جواز تھے جو نگاہ ناز کا زعم تھے میں انہی کا صرف نظر رہا میں دیار یار میں اجنبی جہاں عمر ساری گزر گئی جسے میں نے اپنا سمجھ لیا وہ نگر جہان دگر رہا کبھی ساز ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ ہے اک کٹورا پانی کا

    آنکھ ہے اک کٹورا پانی کا اور یہ حاصل ہے زندگانی کا رائیگاں کر گیا مجھے آخر خوف ایسا تھا رائیگانی کا چل نکلتا ہے سلسلہ اکثر خوش گمانی سے بد گمانی کا درد بوتا ہوں زخم کھلتے ہیں ہے بہت شوق باغ بانی کا کیا ٹھکانہ غم و خوشی کا ہو دل علاقہ ہے لا مکانی کا جا کے دریا میں پھینک آیا ...

    مزید پڑھیے

تمام

8 نظم (Nazm)

    مبادا

    بڑی حیران کن ہے حقیقت خواب ہے یا خواب سے آگے کی منزل یہ دنیا خواب کی دنیا پہ سبقت لے گئی ہے فسانوں سے فزوں تر زندگی ہے گماں کی سرحدیں ہوں یا تخیل کی اڑانیں خرد کی جست سے پیچھے کہیں پیچھے دکھائی دے رہی ہیں خرد کی دسترس میں کیا نہیں ہے نہیں ہے غیر ممکن کبھی امکان سے جو ماورا تھا فقط ...

    مزید پڑھیے

    ٹریفک

    یہ شہر ستم مار دیتا ہے مجھ کو سر راہ شام و سحر کے کنارے نظار و پریشاں میں شوریدہ سر ازدحام کسالت میں گم اپنے چاروں طرف اک نظر ڈالتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں کہ یہ گاڑیاں ہیں یا گاڑی نما وحشتیں رینگتی ہیں مجھے وحشتیں ڈس رہی ہیں تھکن سے بدن میں دراڑیں پڑیں ہیں کوئی منزل بے نشاں تک نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مڈل کلاس

    سفید پوشی کی اوٹ میں بے شمار آہیں چھپی ہوئی ہیں قرین جاں ہے وہی سبک سار زندگی کا خیال اور بس وہ پر سکوں دن وہ جھلملاتا جہاں کہ جس میں ہم اپنے حصے کی زندگی کاش والہانہ گزار پاتے یہ چھوٹی چھوٹی سی خواہشیں تھیں کسی بڑے شہر کی کئی منزلہ عمارت سے گر پڑیں ہیں پھر ان کا ملبہ سمیٹ کر ...

    مزید پڑھیے

    شور آلود

    ایک مدت ہوئی دشت‌ آواز میں کوئی تنہا صدا خامشی کی نوا میں نہیں سن سکا گوش مفلس مرے اب ترسنے لگے ہیں کہ فطرت کی آواز غم ہو گئی زندگی اپنے ہنگام میں کھو گئی شورش گوش و لب کاش کہ تھم سکے تو مجھے خود کلامی کا موقع ملے میں تخیل کی آہٹ سنوں اور تخلیق کے ان سنے گیت گانے لگوں شور و غل کے ...

    مزید پڑھیے

    نثری نظم کی منظوم کتھا

    اور پھر کچھ یوں ہوا لفظ کی تکرار سے مرتعش اظہار سے عقدۂ دشوار سے شاعری اکتا گئی شاعری کی بے کراں موج تخیل یوں اٹھی تنگ نائے نظم و نغمہ گم ہوئی امتیاز بحر و بر مٹتا گیا اہتمام‌ ذوق تر جاتا رہا چشمۂ‌ وہم و گماں پھوٹتا ہے وادئ عجز بیاں کے وسط سے پھیلتی ہے خیرگی لمحۂ معکوس ہے آب جوئے ...

    مزید پڑھیے

تمام