سالم شجاع انصاری کی غزل

    ہزاروں رنج ملے سینکڑوں ملال ملے

    ہزاروں رنج ملے سینکڑوں ملال ملے ہم اپنے آپ سے جب بھی ملے نڈھال ملے ہر ایک شخص سے ملنا کہاں مناسب تھا ملے انہیں سے جہاں دل ملے خیال ملے وفا کی راہ میں کس پر نہ تہمتیں آئیں کوئی تو ایسی زمانے میں اک مثال ملے نہیں ہے تیرے جہاں میں کوئی بھی شے ایسی جسے عروج ملے اور نہ پھر زوال ...

    مزید پڑھیے

    ضبط کی حد سے گزر کر خار تو ہونا ہی تھا

    ضبط کی حد سے گزر کر خار تو ہونا ہی تھا شدت غم کا مگر اظہار تو ہونا ہی تھا آئنے کب تک سلامت رہتے شہر سنگ میں ایک دن پتھر کوئی بیدار تو ہونا ہی تھا خاک میں ملنا ہی تھا اک دن غرور زندگی ریت کی دیوار کو مسمار تو ہونا ہی تھا کس طرح کرتے نظر انداز اپنے آپ کو اک نہ اک دن زندگی سے پیار تو ...

    مزید پڑھیے

    تمام عمر کی تنہائیوں پہ بھاری تھی

    تمام عمر کی تنہائیوں پہ بھاری تھی وہ ایک شام ترے ساتھ جو گزاری تھی افق پہ لکھتا رہا آفتاب تحریریں مگر بیاض زمیں روشنی سے عاری تھی سفیر صبح کی آہٹ پہ ہو گئی بیدار غنودگی میں جو خوابیدہ شب خماری تھی اسی نے کر دیا پیوست پیٹھ میں خنجر وہ شخص جس کی رفاقت سے پیٹھ بھاری تھی دل و دماغ ...

    مزید پڑھیے

    دل میں اوروں کے لئے کینہ و کد رکھتے ہیں

    دل میں اوروں کے لئے کینہ و کد رکھتے ہیں لوگ اخلاص کے پردے میں حسد رکھتے ہیں آپ سے ہاتھ ملاتے ہوئے ڈر لگتا ہے آپ تو پیار کے رشتوں میں بھی حد رکھتے ہیں یہ ضروری نہیں دل ان کے ہوں حق سے معمور وہ جو چہروں پہ عبادت کی سند رکھتے ہیں کیا پتہ کب کسی رشتے کا بھروسہ ٹوٹے ایسے لوگوں سے نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2