سلیم شہزاد کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    رنگ تعبیر کا ٹوٹے ہوئے خوابوں میں نہیں

    رنگ تعبیر کا ٹوٹے ہوئے خوابوں میں نہیں چھاؤں کا لمس کہیں جیسے سرابوں میں نہیں کر دیا ساحر تہذیب نے پتھر ان کو چہرے لمحوں کے وہ ریشم کی نقابوں میں نہیں آ کے ساحل پہ ہوس کے نہ یوں موجوں سے ڈرو رنگ گہرائی میں پاؤ گے حبابوں میں نہیں انگ انگ اس کا تھا اک نیلے نشے میں ڈوبا ابدی کیف وہ ...

    مزید پڑھیے

    ہاں کہیں جگنو چمکتا تھا چلو واپس چلو

    ہاں کہیں جگنو چمکتا تھا چلو واپس چلو ان سرنگوں میں اندھیرا ہے تو ہو واپس چلو ہم کو ہر اندھے کی فہم منزلت کا ہے شعور کہہ رہا ہے قافلے والوں سے جو واپس چلو اس طرف کے قہقہوں کا راز کچھ کھلتا نہیں اس لئے اپنے ہی ماتم زار کو واپس چلو واپسی کے راستے مسدود ہو جانے سے قبل کس لئے تم ہو ...

    مزید پڑھیے

    پھر نہ آئے گا یہ لمحہ سوچ لے

    پھر نہ آئے گا یہ لمحہ سوچ لے سامنے بہتا ہے دریا سوچ لے کشتیوں کو پھونک کر آگے نہ بڑھ ڈوب جائے گا جزیرہ سوچ لے دیکھ کر اس کو نہتا خوش نہ ہو تجربہ پہلا ہے تیرا سوچ لے اپنے شیشے کے پروں کا کر خیال رخ نہیں اچھا ہوا کا سوچ لے رشتۂ آب و سراب اک خواب ہے تو بھی سایہ میں بھی سایہ سوچ ...

    مزید پڑھیے

    شہریاروں نے دکھائیں مجھ کو تصویریں بہت

    شہریاروں نے دکھائیں مجھ کو تصویریں بہت تیری بستی تک ملیں رستے میں جاگیریں بہت نذر آتش کر رہے ہو آج پر کل دیکھنا ان صحیفوں کی لکھی جائیں گی تفسیریں بہت آج بھی میرے لئے مشکوک ہے تیرا لگاؤ پتھروں پہ نقش دیکھیں میں نے تحریریں بہت سات رنگوں میں بٹی ہو جیسے سورج کی کرن خواب دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    صدیوں کے رنگ و بو کو نہ ڈھونڈو گپھاؤں میں

    صدیوں کے رنگ و بو کو نہ ڈھونڈو گپھاؤں میں آؤ کسی سے پوچھو پتہ ان کا گاؤں میں گھبرا کے بلبلے نے سمندر کی ذات سے پھیلا دیا وجود کو ساری دشاؤں میں آواز خود کو دو تو ملے کچھ جواب بھی آخر پکارتے ہو کسے تم خلاؤں میں ڈھونڈو تو دیوتاؤں کے آدرش ہیں بہت پر آدمی کا رنگ کہاں دیوتاؤں ...

    مزید پڑھیے

تمام

1 نظم (Nazm)

    ابجد

    نظم کی تختی پہ غزل کے ہجے پنجوں پہ گاجنی کے بلکتے بلکتے رشتوں کی ابجد پہ ہراساں کھڑے تھے لمحوں کی رسوئی میں حرفوں کی ہنڈیا عہد نزار سے جڑ گئی نہ غزل کی تختی نہ نظم کے ہجے بس ابجد تھی کہ رشتوں کی جدول میں پڑی پڑی حرفوں کی شناخت بھول گئی

    مزید پڑھیے