ابجد سلیم شہزاد 07 ستمبر 2020 شیئر کریں نظم کی تختی پہ غزل کے ہجے پنجوں پہ گاجنی کے بلکتے بلکتے رشتوں کی ابجد پہ ہراساں کھڑے تھے لمحوں کی رسوئی میں حرفوں کی ہنڈیا عہد نزار سے جڑ گئی نہ غزل کی تختی نہ نظم کے ہجے بس ابجد تھی کہ رشتوں کی جدول میں پڑی پڑی حرفوں کی شناخت بھول گئی