سلیم سرفراز کی غزل

    سفر سے آئے تو پھر اک سفر نصیب ہوا

    سفر سے آئے تو پھر اک سفر نصیب ہوا کہ عمر بھر کے لیے کس کو گھر نصیب ہوا وہ ایک چہرہ جو برسوں رہا ہے آنکھوں میں کب اوس کو دیکھنا بھی آنکھ بھر نصیب ہوا تمام عمر گزاری اسی کے کاندھے پر جو ایک لمحہ ہمیں مختصر نصیب ہوا ہوا میں ہلتے ہوئے ہاتھ اور نم آنکھیں ہمیں بس اتنا ہی زاد سفر نصیب ...

    مزید پڑھیے

    رنگ خلوص گنگ و جمن میں نہیں رہا

    رنگ خلوص گنگ و جمن میں نہیں رہا کیا حسن تھا جو ارض وطن میں نہیں رہا کرتا نہیں ہے دشت تمنا میں کوئی رم اب وہ غزال شوق ختن میں نہیں رہا اشجار گل کو میں نے ہی سینچا تمام عمر خوشبو اسے ملی جو چمن میں نہیں رہا یک لخت مجھ پہ اس کے سب اسرار کھل گئے اب کوئی جن چراغ بدن میں نہیں رہا تبدیل ...

    مزید پڑھیے

    تو نے غم خواہ مخواہ اس کا اٹھایا ہوا ہے

    تو نے غم خواہ مخواہ اس کا اٹھایا ہوا ہے دل یہ ناداں تو کسی اور پہ آیا ہوا ہے اس زمانے کو دکھانے کے لیے چہرے پر ہم نے اک چہرۂ شاداب چڑھایا ہوا ہے رات بھر چاند ستاروں سے سجاتے ہیں اسے ہم نے جس گھر کو تصور میں بسایا ہوا ہے ایک چہرہ جسے ہم نے بھی نہیں دیکھا کبھی اپنی آنکھوں میں ...

    مزید پڑھیے