Sakhawat Shameem

سخاوت شمیم

  • 1951

سخاوت شمیم کی غزل

    حرف تہجی سیکھ رہا ہوں

    حرف تہجی سیکھ رہا ہوں دریا میں میں کود گیا ہوں میرے قدم کی آہٹ پا کر رات جو سہمی چونک گیا ہوں سامنے منزل آ گئی لیکن آگے کیا ہے سوچ رہا ہوں تیری طرف اک گام بڑھا تھا اب میں خود کو ڈھونڈ رہا ہوں کون کرے گا صورت صیقل زنگ لگا اک آئینہ ہوں منزل سے ہے اتنا تعلق میل کا پتھر بن کے کھڑا ...

    مزید پڑھیے

    گو ترے شہر میں بھی رات رہے

    گو ترے شہر میں بھی رات رہے صبح تک تشنۂ حیات رہے درد کا چاند بجھ گیا لیکن غم کے تارے تمام رات رہے اور بھی ہیں تعلقات مگر غم کے رشتے سے میری بات رہے زندگی میں اجل سے پہلے ہی کیسے جانکاہ سانحات رہے ہم کو ان سے شکایتیں ہیں شمیمؔ لوگ مرہون التفات رہے

    مزید پڑھیے

    راہ میں کوئی کھڑا ہو جیسے

    راہ میں کوئی کھڑا ہو جیسے اس کو منزل کا پتہ ہو جیسے کیا ہوئے آج وہ چہرے کے نقوش آئنہ پوچھ رہا ہو جیسے میرے ہم راہ نہیں تو جب سے یہ سفر ایک سزا ہو جیسے تیری یادوں سے گریزاں ہونا اب غم دل کی دوا ہو جیسے اف یہ خاموش محبت کہ شمیمؔ سارے عالم کو پتہ ہو جیسے

    مزید پڑھیے

    روشنی در پہ کھڑی مجھ کو بلاتی کیوں ہے

    روشنی در پہ کھڑی مجھ کو بلاتی کیوں ہے میں اندھیرے میں ہوں احساس دلاتی کیوں ہے رات حصہ ہے مری عمر کا جی لینے دے زندگی چھوڑ کے تنہا مجھے جاتی کیوں ہے شہر کے لوگ تو سڑکوں پہ رہا کرتے ہیں گھر بنانے کی لگن مجھ کو ستاتی کیوں ہے گمرہی سے بھی مرا ذوق سفر کم تو نہیں راہ لیکن مرے قدموں کو ...

    مزید پڑھیے