ساجد امجد کی غزل

    چلو دنیا سے ملنا چھوڑ دیں گے

    چلو دنیا سے ملنا چھوڑ دیں گے مگر ہم آئنے سے کیا کہیں گے چلیں گے روشنی ہوگی جہاں تک پھر اس کے بعد تجھ سے آ ملیں گے یہاں کچھ بستیاں تھیں اب سے پہلے ملا کوئی تو یہ بھی پوچھ لیں گے یہ سایہ کب تلک سایہ رہے گا کہاں تک پیڑ سورج سے لڑیں گے چراغ اس تیرگی میں کب جلے گا یہ شہر آباد ہیں پر کب ...

    مزید پڑھیے

    ہر آئنے میں ترے خد و خال آتے ہیں

    ہر آئنے میں ترے خد و خال آتے ہیں عجیب رنج ترے آشنا اٹھاتے ہیں تمام عمر کسے کون یاد رکھتا ہے یہ جانتے ہیں مگر حوصلہ بڑھاتے ہیں وصال و ہجر کی سب تہمتیں اسی تک تھیں اب ایسے خواب بھی کب دیکھنے میں آتے ہیں یہ لہر لہر کسے ڈھونڈتی ہے موج ہوا یہ ریگزار کسے آئنہ دکھاتے ہیں شکست جاں کو ...

    مزید پڑھیے

    شکستہ دل تھے ترا اعتبار کیا کرتے

    شکستہ دل تھے ترا اعتبار کیا کرتے جو اعتبار بھی کرتے تو پیار کیا کرتے ذرا سی دیر کو بیٹھے تھے پھر اٹھا نہ گیا شجر ہی ایسا تھا وہ سایہ دار کیا کرتے شب انتظار میں دن یاد یار میں کاٹے اب اور عزت لیل و نہار کیا کرتے کبھی قدم سفر شوق میں رکے ہی نہیں تو سنگ میل بھلا ہم شمار کیا ...

    مزید پڑھیے