Saghir Ahmad Sufi

صغیر احمد صوفی

صغیر احمد صوفی کی غزل

    کام آئی عشق کی دیوانگی کل رات کو

    کام آئی عشق کی دیوانگی کل رات کو حسن نے بخشی متاع دوستی کل رات کو قامت دل کش لباس سرخ میں تھی میہماں میرے گھر اک سرخ مخمل کی پری کل رات کو تمتمائے گال بھیگے ہونٹ چشم نیم وا تھی مجسم جیسے میری شاعری کل رات کو وہ مرے شانہ بہ شانہ صحن میں محو خرام چاند کے پہلو میں جیسے چاندنی کل ...

    مزید پڑھیے

    ہر انجمن میں دعویٔ وحشت کیا کرو

    ہر انجمن میں دعویٔ وحشت کیا کرو کڑھتا ہو جی تو لوگوں سے نفرت کیا کرو جن دوستوں کے بل پہ سجاتے ہو بزم خاص ان سب کی احتیاط سے غیبت کیا کرو توبہ کرو جو صبح میں ٹوٹے بدن کی شاخ شب میں بیان مے کی فضیلت کیا کرو گھر سے چلو تو زیب کرو طوق بزدلی گھر میں رہو تو عزم شجاعت کیا کرو کرتے رہو ...

    مزید پڑھیے

    کب تلک ہماری سعیٔ عمل رائیگاں رہے

    کب تلک ہماری سعیٔ عمل رائیگاں رہے کب تک غبار دیدہ و دل رائیگاں رہے آسودۂ بیاں تو ہزاروں ہیں بزم میں لیکن وہ بد نصیب جو تشنہ بیاں رہے ہے اب زبان خلق انہیں کی فسانہ خواں کل تک ترے عتاب میں جو بے زباں رہے کیا ذکر عیش رفتۂ عہد بہار کا غم بھی مجھے قبول ہے گر جاوداں رہے کیا ...

    مزید پڑھیے

    محبت میں وفاؤں کا یہی انعام ہے صوفیؔ

    محبت میں وفاؤں کا یہی انعام ہے صوفیؔ لیے داغ جدائی حسرت ناکام ہے صوفیؔ اگر الزام ہے کوئی تو یہ الزام ہے صوفیؔ کہ تو اپنی شرافت کے لیے بدنام ہے صوفیؔ ہمیں ہر دور میں تھے گردش ایام کے مارے مگر ہم سے علاج گردش ایام ہے صوفیؔ بہ فیض رسم مے خانہ بدلتے ہی رہے ساقی جو بن مانگے پلائے ...

    مزید پڑھیے