Saeed Akhtar

سعید اختر

سعید اختر کی غزل

    یہ کس کے حسن کی جلوہ گری ہے

    یہ کس کے حسن کی جلوہ گری ہے جہاں تک دیکھتا ہوں روشنی ہے اگر ہوتے نہیں حساس پتھر تری آنکھوں میں یہ کیسی نمی ہے یقیں اٹھ جائے اپنے دست و پا سے اسی کا نام لوگو خودکشی ہے اگر لمحوں کی قیمت جان جائیں ہر اک لمحہ میں پوشیدہ صدی ہے تجھے بھی منہ کے بل گرنا پڑے گا ابھی تو سر سے ٹوپی ہی ...

    مزید پڑھیے

    غم رات دن رہے تو خوشی بھی کبھی رہی

    غم رات دن رہے تو خوشی بھی کبھی رہی اک بے وفا سے اپنی بڑی دوستی رہی ان سے ملن کی شام گھڑی دو گھڑی رہی اور پھر جو رات آئی تو برسوں کھڑی رہی شام وصال درد نے جاتے ہوئے کہا کل پھر ملیں گے دوست اگر زندگی رہی بستی اجڑ گئی بھی تو کیکر ہرے رہے دربند ہو گئے بھی تو کھڑکی کھلی رہی اخترؔ ...

    مزید پڑھیے

    شہر کے فٹ پاتھ پر کچھ چبھتے منظر دیکھنا

    شہر کے فٹ پاتھ پر کچھ چبھتے منظر دیکھنا سرد راتوں میں کبھی گھر سے نکل کر دیکھنا یہ سمجھ لو تشنگی کا دور سر پر آ گیا رات کو خوابوں میں رہ رہ کر سمندر دیکھنا کس کے ہاتھوں میں ہیں پتھر کون خالی ہاتھ ہے یہ سمجھنے کے لیے شیشہ سا بن کر دیکھنا بے حسی ہے بزدلی ہے حوصلہ مندی نہیں بیٹھ کر ...

    مزید پڑھیے

    پہلے وہ قید مرگ سے مجھ کو رہا کرے

    پہلے وہ قید مرگ سے مجھ کو رہا کرے پھر ہو تو بے وفائی کا بے شک گلہ کرے اب کشمکش کے بوجھ کی طاقت نہیں رہی اب دل میں کوئی آس نہ جاگے خدا کرے ہو شمع تو بتائے کہ جلتے ہیں کس طرح جگنو بھی مر گئے ہوں تو پروانہ کیا کرے وہ حکم دے رہے ہیں مگر سوچتے نہیں کس طرح کوئی دل کو جگر سے جدا کرے وہ ...

    مزید پڑھیے