سچن شالنی کی غزل

    یوں لگے درد کی اس دل سے شناسائی ہے

    یوں لگے درد کی اس دل سے شناسائی ہے موسم غم کی تبھی تو یہ لہر آئی ہے توڑ کر رشتہ یوں الزام لگانے والے بے وفا میں ہوں اگر تو بھی تو ہرجائی ہے چاند نکلا نہیں تو بھی نہیں دکھتا اب تو رات ہے میں ہوں اندھیرا ہے یے تنہائی ہے راز تیرے جو چھپاؤں تو یہ دم گھٹتا ہے بات کہہ دوں جو زمانے سے تو ...

    مزید پڑھیے

    مانا دکھ کو تھوڑا کم کر دیتی ہیں

    مانا دکھ کو تھوڑا کم کر دیتی ہیں پر خوشیاں بھی آنکھیں نم کر دیتی ہیں پیار کی کلیاں جب بھی دل میں کھلتی ہیں میں اور تم کو اکثر ہم کر دیتی ہیں جب یادوں کے پھول پلک پر کھلتے ہیں آنکھیں اشکوں کو شبنم کر دیتی ہیں اس سے زیادہ کون سچنؔ دھوکھا دے گا جسم کو سانسیں ہی بے دم کر دیتی ہیں

    مزید پڑھیے

    اندھیری رات کے سانچے میں ڈھالے جا چکے تھے ہم

    اندھیری رات کے سانچے میں ڈھالے جا چکے تھے ہم بہت ہی دیر سے آئے اجالے جا چکے تھے ہم تھے ایسی بد گمانی میں نہیں احساس ہو پایا ہماری ہی کہانی سے نکالے جا چکے تھے ہم یہ موتی اشک کے اب تو سدا پلکوں پہ رہتے ہیں سمندر سے زیادہ ہی کھنگالے جا چکے تھے ہم زمیں پر آئیں گے تو فیصلہ ہوگا مقدر ...

    مزید پڑھیے

    کیسے سچ سے رہے بے خبر آئنہ

    کیسے سچ سے رہے بے خبر آئنہ آج خوش ہے بہت ٹوٹ کر آئنہ ہر طرف بے ضمیری نظر آئے گی ہو گیا گر یہ پورا نگر آئنہ آئنہ لوگ گھر میں سجاتے ہیں پر میں نے کر ڈالا پورا ہی گھر آئنہ جھوٹھے چہروں کو سچا بتاتا صدا رکھتا انساں سی فطرت اگر آئنہ آئنہ کی ہے اک اور خوبی سنو سب کو آتا نہیں ہے نظر ...

    مزید پڑھیے

    دو ہی کردار تھے کہانی میں

    دو ہی کردار تھے کہانی میں دونوں ہی مر گئے جوانی میں لوگ لاشیں نکال پائے بس عشق ڈوبا ہوا تھا پانی میں زندگی جل چکی تھی لکڑی سی راکھ بس بچ گئی نشانی میں موڑ آیا تھا میں مڑا ہی نہیں ہو گئی بھول زندگانی میں تھا سچنؔ شخص اک مرے جیسا اور وہ میں تھا بد گمانی میں

    مزید پڑھیے

    اک چہرہ پر روز گزارہ ہوتا ہے

    اک چہرہ پر روز گزارہ ہوتا ہے پیار کسی کو کب دوبارہ ہوتا ہے میں تم پر ہر بار بھروسہ کرتا ہوں اتنا سچا جھوٹھ تمہارا ہوتا ہے تم میرے اس دل کو پاگل مت کہنا اپنا بچہ سب کو پیارا ہوتا ہے تم جاؤ پر یادوں کو تو رہنے دو یادوں کا بھی ایک سہارا ہوتا ہے اس پنچھی کا حال سچنؔ کس نے سمجھا جو ...

    مزید پڑھیے

    ڈھل چکے سورج کے احساسات کی

    ڈھل چکے سورج کے احساسات کی ہے بہت الجھی کہانی رات کی سب بکھر جائیں گے موتی فرش پر کھول دوں گر پوٹلی جذبات کی رکھ دی ہے عزت جنھوں نے تاک پہ بات کرتے ہیں وہی اوقات کی اپنی محنت پر بھروسہ ہے ہمیں ہے نہیں خواہش کسی خیرات کی ہو گیا عادی سچنؔ دل درد کا آنکھ عادی ہو گئی برسات کی

    مزید پڑھیے

    ٹھہرے بھی نہیں ہیں کہیں چلتے بھی نہیں ہیں

    ٹھہرے بھی نہیں ہیں کہیں چلتے بھی نہیں ہیں ہم جسم کی سرحد سے نکلتے بھی نہیں ہیں خود سے ملیں گے سوچ کے گھر سے ہیں نکلتے لیکن کمال یہ ہے کہ ملتے بھی نہیں ہیں پلکوں کے کناروں پہ ہیں بے چین سے آنسو گرتے بھی نہیں اور سنبھلتے بھی نہیں ہیں آنکھوں کی یہ سازش ہے یا نیندوں کی بغاوت بچوں کی ...

    مزید پڑھیے