Sabir Zahid

صابر زاہد

صابر زاہد کی غزل

    جب بھی پڑھا ہے شام کا چہرہ ورق ورق

    جب بھی پڑھا ہے شام کا چہرہ ورق ورق پایا ہے آفتاب کا ماتھا عرق عرق لہجے میں ڈھونڈیئے نہ حلاوت کہ عمر بھر لمحوں کا زہر ہم نے پیا ہے رمق رمق تھے قہقہے سراب سمندر جو پی گئے کہنے کو دل کے گھاؤ تھے روشن طبق طبق قاتل کا مل سکا نہ بھرے شہر میں سراغ ہر چند میرا خون تھا پھیلا شفق شفق جو ...

    مزید پڑھیے

    آندھی کا کر خیال نہ تیور ہوا کے دیکھ

    آندھی کا کر خیال نہ تیور ہوا کے دیکھ دیوار ریت کی سہی اونچی اٹھا کے دیکھ سایہ ہوں دھوپ ہوں کہ سرابوں کا روپ ہوں میں کیا ہوں کون ہوں مرے نزدیک آ کے دیکھ اپنی ہی ذات میں تو سمندر ہوا تو کیا میرے لہو میں کھولتا سورج بجھا کے دیکھ اک روز تو لباس سمجھ کر مجھے پہن کچھ دیر ہی سہی مجھے ...

    مزید پڑھیے