Saadat Bandvi

سعادت باندوی

سعادت باندوی کی غزل

    یہ مت بھلا کہ یہاں جس قدر اجالے ہیں

    یہ مت بھلا کہ یہاں جس قدر اجالے ہیں یہ آدمی نے اندھیروں سے ہی نکالے ہیں نہ پوچھ کیوں ہے یہ رنگ غزل میں تبدیلی یہ دیکھ سینۂ شاعر میں کتنے چھالے ہیں لباس صبر و تحمل جو ہم ہیں پہنے ہوئے اب اس کے لگتا ہے بخیے ادھڑنے والے ہیں توقعات وہی آج بھی ہیں یاروں سے کہ اب بھی یار سبھی آستین ...

    مزید پڑھیے

    دل میں ہو گر خواہش تصویر عبرت دیکھنا

    دل میں ہو گر خواہش تصویر عبرت دیکھنا خوش نصیبی بانٹنے والوں کی قسمت دیکھنا دوستوں اور دشمنوں کے درمیاں رہ کر تو دیکھ تجھ کو آ جائے گا فرق نور و ظلمت دیکھنا کیا قیامت سے ڈریں ہم لوگ تو وہ ہیں جنہیں پڑ رہا ہے روز ہی روز قیامت دیکھنا مفلسی کے دن ہیں اور برسات کی آمد کا شور مشغلا ...

    مزید پڑھیے

    نئے فتنوں کے ہر جانب سے اتنے سر نکل آئے

    نئے فتنوں کے ہر جانب سے اتنے سر نکل آئے زمیں پر جس طرح سبزہ نمی پا کر نکل آئے بہت ہشیار لوگو اس نئی تاریخ کے ہاتھوں نہ جانے کب تمہارا گھر کسی کا گھر نکل آئے کہیں کے پھول پتے ہیں کہیں کے پھل کہیں کے ہیں کچھ ایسے پیڑ بھی بھارت کی دھرتی پر نکل آئے در تقدیس کو جب وا کیا تو قصر حرمت ...

    مزید پڑھیے