روبینہ فیصل کی نظم

    اب ڈر نہیں لگتا

    ایک ڈر تھا تنہائی کا ایک ڈر تھا جدائی کا جو مسلسل میرے ساتھ رہتا تھا کل کا دن جو گزر گیا بہت بھاری لگتا تھا لگتا تھا کسی ایسے دن کا بوجھ اٹھا نہ پاؤں گی آدھے ادھورے راستے میں ہی مر جاؤں گی مگر کل کا دن بھی آ ہی گیا اور ریت کا وہ گھروندا ساتھ ہی بہا لے گیا جس میں رکھے تھے میں نے رنگ ...

    مزید پڑھیے

    کل ہی کی بات نہیں ہوتی

    دہلیز پر جو خواب ٹوٹا ہے وہ کل کا تو نہیں تھا وہ تو نہ جانے کتنے سالوں سے نانیوں دادیوں نے الھڑ آنکھوں میں جگا رکھا تھا یہ جو دیوار پر لگی تصویر اچانک دھڑام سے نیچے گر گئی ہے یہ کل ہی تو نہیں ٹانگی گئی تھی یہ تو اس آئینے میں سالوں سے نظر آ رہی تھی جو لڑکیاں تکیے کے نیچے اس امید پر ...

    مزید پڑھیے

    اپنا سایہ

    جسموں کے کھو جانے اور رویوں کے بدلنے کے کرب نے مجھے تمام عمر اندیشۂ ضیاع میں ہی مبتلا رکھا کل کے دن نے مجھ میں بسے سب خوف مار دئے چہرے سے نقاب اترا تو سچائی سینہ تانے میرے سامنے آ کھڑی ہوئی خود سے بچھڑی ہوئی تھی اب خود سے آ ملی ہوں میرا سایہ مجھ میں نو پھٹا ہو کر جاگ گیا ہے ...

    مزید پڑھیے