Razi Mujtaba

رضی مجتبی

رضی مجتبی کی غزل

    خود نگر تھے اور محو دید حسن یار تھے

    خود نگر تھے اور محو دید حسن یار تھے ہم کہ اپنے روبرو شیشہ کی اک دیوار تھے پھر نگاہوں نے بنے تھے چار سو خوابوں کے جال سو بہ سو پھر رشتہ گر وہم و گماں کے تار تھے مختصر سا ہے ہمارا قصۂ شوق سفر ابر آوارہ تھے ہم لیکن سر کہسار تھے خندہ ریز و گریہ گیں تھی زخم خاطر کی نمود دور دنیا کے ...

    مزید پڑھیے

    حقیقتوں کا پتہ دے کے خود سراب ہوا

    حقیقتوں کا پتہ دے کے خود سراب ہوا وہ مجھ کو ہوش میں لا کر خیال و خواب ہوا وہ اپنے لمس سے پتھر بنا گیا مجھ کو وصال اس کا مجھے صورت عذاب ہوا سروں پہ سب کے پڑی حادثوں کی دھوپ مگر کوئی سراب بنا اور کوئی سحاب ہوا عذاب سب کے مرے جسم و جاں پہ نقش ہوئے مرا وجود مرے عہد کی کتاب ہوا سکوت ...

    مزید پڑھیے