خود نگر تھے اور محو دید حسن یار تھے
خود نگر تھے اور محو دید حسن یار تھے ہم کہ اپنے روبرو شیشہ کی اک دیوار تھے پھر نگاہوں نے بنے تھے چار سو خوابوں کے جال سو بہ سو پھر رشتہ گر وہم و گماں کے تار تھے مختصر سا ہے ہمارا قصۂ شوق سفر ابر آوارہ تھے ہم لیکن سر کہسار تھے خندہ ریز و گریہ گیں تھی زخم خاطر کی نمود دور دنیا کے ...