Raza Lakhnavi

رضا لکھنوی

  • 1896 - 1978

رضا لکھنوی کی غزل

    واسطہ کوئی نہ رکھ کر بھی ستم ڈھاتے ہو تم

    واسطہ کوئی نہ رکھ کر بھی ستم ڈھاتے ہو تم دل تڑپ اٹھتا ہے اب کاہے کو یاد آتے ہو تم میری سب آزادیاں بندہ نوازی پر نثار اے خوشا قید وفا زنجیر پہناتے ہو تم لاتے ہو کیف طرب دیتے ہو پیغام حیات کیا بتاؤں ساتھ کیا لے کر چلے جاتے ہو تم اس طرح چھپتے ہو جلووں کی فراوانی کے ساتھ میں سمجھتا ...

    مزید پڑھیے

    حسن کی فطرت میں دل آزاریاں

    حسن کی فطرت میں دل آزاریاں اس پہ ظالم نت نئی تیاریاں سادگی میں آ گئیں دل داریاں پھول اٹھیں اک پھول میں پھلواریاں متصل طفلی سے آغاز شباب خواب کے آغوش میں بیداریاں چارہ سازوں کی وہ قاتل غفلتیں درد مندوں کی وہ غیرت داریاں بس ہجوم شوق اب اس بھیڑ میں کھوئی جاتی ہیں مری خود ...

    مزید پڑھیے

    وہ آنسو جو ہنس ہنس کے ہم نے پیے ہیں

    وہ آنسو جو ہنس ہنس کے ہم نے پیے ہیں تمہارے دئیے تھے تمہارے لیے ہیں کریں وہ جو چاہیں کہیں وہ جو چاہیں میں پابند الفت مرے لب سیے ہیں تمہارے ہی رحم و کرم کے سہارے نہ معلوم مر مر کے کیونکر جیے ہیں بڑی دیر تک جس سے پونچھے تھے آنسو وہ دامن ابھی ہاتھ ہی میں لیے ہیں اسے میں ہی سمجھوں ...

    مزید پڑھیے

    خیال حسن میں یوں زندگی تمام ہوئی

    خیال حسن میں یوں زندگی تمام ہوئی حسین صبح ہوئی اور حسین شام ہوئی وقار عشق بس اب سر جھکا دے قدموں پر ادھر سے تیرے لیے سبقت سلام ہوئی ہر ایک اپنی جگہ خوش ہر اک یہی سمجھا نگاہ خاص بطرز نگاہ عام ہوئی نظر ملی تو تبسم رہا خموشی پر نظر پھری تو ذرا ہمت کلام ہوئی بس اب تو تم نے محبت کا ...

    مزید پڑھیے

    جو خود نہ اپنے ارادے سے بدگماں ہوتا

    جو خود نہ اپنے ارادے سے بدگماں ہوتا قدم اٹھاتے ہی منزل پہ کارواں ہوتا فریب دے کے تغافل وبال جاں ہوتا جو اک لطیف تبسم نہ درمیاں ہوتا دماغ عرش پہ ہے تیرے در کی ٹھوکر سے نصیب ہوتا جو سجدہ تو میں کہاں ہوتا قفس سے دیکھ کے گلشن ٹپک پڑے آنسو جہاں نظر ہے یہاں کاش آشیاں ہوتا ہمیں نے ان ...

    مزید پڑھیے