افلاک گونگے ہیں
مگر یہ آرزو کب تھی کہ ہم افلاک کے فرمان کی سولی پہ جا لٹکیں تو آخر کس لیے وقت و مکاں کی گھاٹیاں اتریں بنا کر مرقدوں کو در عدم کے آسماں کی خاک چھانیں اور پھر جیون کے موسم کو اسیری کا کفن اوڑھیں مگر ان سب سوالوں کے جوابوں سے بہت پہلے نیا دن سورجوں پر بیٹھ کر کھڑکی کے رستے خواب زاروں ...