میں کہ خود اپنے ہی اندر ہوا ٹکڑے ٹکڑے
میں کہ خود اپنے ہی اندر ہوا ٹکڑے ٹکڑے یعنی کوڑے میں سمندر ہوا ٹکڑے ٹکڑے اس عمارت کا مقدر ہوا ٹکڑے ٹکڑے جس کی بنیاد میں پتھر ہوا ٹکڑے ٹکڑے کوئی لغزش کسی لمحے سے ہوئی تھی شاید گردش وقت کا محور ہوا ٹکڑے ٹکڑے چڑھتے سورج کی اترتے ہی کرن آنکھوں میں میرے ہر خواب کا منظر ہوا ٹکڑے ...